داعش ایک خطرناک وائرس ... (قسط اول)


داعش ایک خطرناک وائرس ... (قسط اول)

ہیلری کلنٹن کے مطابق داعش کو القاعدہ کے باقی ماندہ امور انجام دینے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے۔ القاعده گروه کے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد داعش کو خلق کیا گیا اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سامراجی ممالک اسلام اور مسلمانوں کی بربادی کے لئے مستقبل میں بھی اسی طرح کے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہیں گے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ داعش کو القاعده کے باقی مانده امور کو انجام دینے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ القاعده گروه کے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد داعش کو خلق کیا گیا اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ داعش کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور سامراجی ممالک اسلام اور مسلمانوں کی بربادی کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہیں گے تاہم عراق اور شام میں داعش کی حالیہ شکستوں کے بعد داعش کا باب بند نہیں ہوا بلکه اس خطرناک وائرس سے کئی ممالک میں استفاده جاری ہے اسی تناظر میں ہم  جنوبی ایشا کے بعض ممالک میں داعش کی سرگرمیوں کا سرسری جائزه لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سعودی عرب کے فرمانروا نے کچھ عرصه قبل ملائشیا اور انڈونیشیا کا دوره کیا تھا ان کے اس دورے سے ان ممالک میں تکفیری وہابیت کے فروع کا تاثر واضح طور پر ابھرا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں داعش کے نفوذ میں اضافے کی تشویشوں میں اضافہ ہوا ہے۔ داعش نے شام اور عراق میں جارحیت کر کے یہ سمجھا تھا کہ وه اس علاقے کو اپنا مرکز بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان ممالک میں حالیہ شکستوں کے بعد انہوں نے مشرق وسطی سے افغانستان اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا ہے شاید اسی تناظر میں آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے جنوبی فلپائن میں داعش کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سے خبردار بھی کیا ہے۔ ان علاقوں میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں  نیز خلافت کے قیام کا امکان دیکھ کر ہی آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

امریکہ کی سابق وزیر خارجہ اس سے پہلے اعتراف کر چکی ہیں کہ انہوں نے داعش گروه کو تشکیل دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے تاکہ القاعده کے دہشت گردوں کو ایک ہی سمت دی جائے اور ان سے متعلقہ امور انجام دلوائے جائیں اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کی شکست کے باوجود ان کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوئی ہیں اور امریکہ ان سے ابھی مزید کام لینے کا اراده رکھتا ہے۔ اسی تناظر میں اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ داعش گروه میں موجود جنوب مشرقی ایشیا ممالک کے دہشت گردوں کو ان کے اپنے علاقوں انڈونیشیا، ملائشیا اور فلپائن وغیره بھیجا جائیگا تاکہ اس علاقے میں خلافت کے قیام کے ادھورے منصوبے کو مکمل کیا جا سکے۔

 گزشتہ چار عشروں سے جنوب مغربی ایشیا کے علاقے میں انتہا پسند گروه سرگرم عمل ہیں اور یہ انتہا پسند گروه داعش کی بیعت کر کے اس علاقے میں داعش کو مضبوط بنا کر خلافت کے نفاذ کے لئے کوشش  کریں گے۔ شام اور عراق سے آنے والے داعشی دہشت گرد یہاں موجود انتہا پسند گروہوں سے ملکر امریکی ایجنڈے کو مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس علاقے  بالخصوص جنوبی فلپائن میں ابوسیان جیسے انتہا پسند گروه عرصے سے سرگرم عمل ہیں اور وه داعش  کے ساتھ ملکر دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دے سکتے ہیں۔ ملائشیا کی جماعت اسلامی نامی تنظیم کے فعال کارکنوں نے جو القاعده سے قریبی رابطے میں تھے داعش کے اس علاقے میں آنے کے فورا بعد داعش کے سرغنہ کی بیعت کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی ملائشیا کے سرکرده رہنما ابو بشیر جو اس سے پہلے کئی بار گرفتار ہو چکے ہیں اور اپنی انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے معروف ہیں انہوں نے بھی داعش کی بیعت کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

جماعت اسلامی ملائشیا کے علاوه فلپائن میں سرگرم عمل انتہا پسند گروه ابو سیاف نے بھی داعش کی بیعت کا اعلان کر کے فلپائن اور ملائشیا میں اغوا برائے تاوان کی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان گروہوں نے بھی بعض مغویوں کو داعش کی طرح قتل کر کے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وه بھی فکری اور عملی لحاظ سے داعش کے پیروکار ہیں۔ فلپائن کا ایک اور انتہا پسند گروه  "مائوته" نے بھی داعش کی بیعت کا اعلان کیا ہے۔ وه بھی داعش کے مقامی گروه کا کردار ادا کر رہا ہے اس کے علاوه ابودجانہ، ابو حبیب، جندالله، ابو صدر، جندالتوحید، معرکته الانصار جیسے گروه جنوب مشرقی ایشیا میں داعش کی بیعت کا اعلان کر چکے ہیں۔

داعش گروه اس علاقے کی مقامی گنجائشوں سے فائده اٹھا کر اپنی سرگرمیوں کو مقامی سرگرمیوں میں تبدیل کرنے کا اراده رکھتا ہے۔ اس علاقے میں سرگرم بعض انتہا پسند، مقامی گروہوں سے نالاں تھے لہذا انہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مثال کے طور پر رضوان عسام الدین جو حمبلی نام سے معروف ہے اسے انڈونیشیا کی حکومت نے ملک بدر کر دیا تھا اور اس ملک کی سلفی جماعتیں بھی اس کو ناپسند کرتی تھیں وه داعش میں شامل ہونے میں سرفہرست ہے اسی طرح ملائشیا  مورو اور فلپائن کے بعض گروه جو مقامی تنظیموں سے نالاں تھے انہوں نے فوری طور پر داعش میں شمولیت کا اعلان  کر دیا ہے اور اپنے آپ کو علاقے میں داعش کے بنیادی افراد میں سے قرار دے دیا ہے۔

 انڈونیشیا او رملائشیا میں سعودی امداد سے چلنے والے تکفیری سلفی مدارس کی ایک بڑی تعداد موجود ہے یہ مدارس اور ان کے طلباء اور اساتذه داعش کی افرادی قوت میں اضافے کا باعث بنیں گے اور خلافت کے نظام کے نام پر ان مدارس کو با آسانی داعش کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ ملائشیا میں گزشتہ پانچ سالوں میں تکفیری وہابی گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے اس ملک میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف فعالیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ملائشیا کی حکومت نے بھی ان انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں سے متعلق آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ اس عرصے میں ان گروہوں کو حکومت کی حمایت اور ان کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرنے کی وجہ سے طاقت ملی ہے اور اس وقت یہ معاشرے میں اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہذا ان گروہوں کی داعش میں شرکت سے صورتحال تشویشناک ہو جائیگی اور داعش گروه ان گروہوں کے پلیٹ فارم اور سماجی حیثیت سے استفاده کر کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھائے گا۔

ملائشیا کی جماعت اسلامی اور انڈونیشیا کے دینی مدارس کا پاکستان کے وہابی مدارس سے ایک قریبی رابطہ ہے۔ ان تمام مدارس میں سعودی عرب کا اثر و نفوذ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اس طرح پاکستان سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے درمیان ان مدارس کا نیٹ ورک مزید فعال ہو جائیگا۔ ان مدارس کے وہابی نظریات اور خلافت کا نظام ان تمام مدارس کے طلباء کو داعش کی طرف راغب کرے گا اور اس طرح ان علاقوں میں داعش کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے تیار شده پلیٹ فارم میسر آجائیگا۔ سعودی عرب نے پاکستان اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں وہابی تکفیری دینی مدارس کا جو جال بچھا رکھا ہے وه داعش کے لئے انتہائی سودمند ثابت ہو گا اور وه اس نیٹ ورک کو جس طرح چاہے گا استعمال کر سکے گا۔

اس وقت ملائشیا میں 57 دینی مدارس کام کر رہے ہیں جن کی تعداد 2025 تک 77 ہو جائیگی۔ ملائشیا کے وزیر تعلیم کے مطابق اس ملک کے دینی مدارس کا انتظام و انصرام دینی جماعت "پاس" کے کنٹرول میں ہے اور یہ جماعت حکمران جماعت کی مخالف ہے لہذا اس جماعت نے اپنے مدارس کو سرکاری سطح پر رجسٹر نہیں کرایا ہے۔ پاس نامی انتہاپسند تنظیم گزشتہ چوسنٹھ سال سے ملائشیا میں سرگرم عمل ہے اور اس پر انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے کا  الزام ہے۔ پاس کے سابق نائب سربراه اور نئی تشکیل پانے والی تنظیم "قومی اتحاد" کے سربراه محمد سبونی نے "پاس" اور داعش کے رابطوں کی طرف اشاره کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وه اس تنظیم پر کڑی نظر رکھے اور داعش کے نظریات کو پھیلنے پھولنے سے روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

ملائشیا میں سرگرم "پاس" تنظیم کا ایک رہنما محمد لطفی عارفین جو ابو مصعب کے نام سے معروف تھا داعش کی دعوت پر شام گیا تھا اور وہاں شامی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ محمد سبو کا کہنا ہے کہ تکفیری اور داعشی فکر "پاس" میں سرایت کر چکی ہے۔ دوسری طرف ملائشیا کی حکومت نے دینی مدارس میں عرب اساتذه کی تقرری پر خبردار کیا ہے کیونکہ عرب اساتذه ان دینی مدارس میں تدریس کے بہانے تکفیری نظریات کو فروغ دے رہے ہیں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عرب اساتذه کی ملائشیا کے مدارس اور اسکولوں میں تقرری اس ملک کی نوجوان نسل کو انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی طرف مائل کر رہی ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرنے چائیں۔

سعودی عرب انڈونیشیا میں بھی تکفیری وہابی نظریات کو پھیلانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

ہالینڈ کے ایک محقق اور تجزیہ نگار کریس چیلین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے گزشتہ چند عشروں میں وسیع سرمایہ کاری کر کے انڈونیشیا کے کلچر اور ثقافت میں اپنا اثرو نفوذ بڑھانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ سعودی عرب  نے اسی کے عشرے سے اس ملک میں سلفیت کے فروغ کے لیے اربوں ڈالر خرچ  کیے ہیں۔ سعودی عرب نے انڈونیشیا میں ایک سو پچاس سے زائد مساجد تعمیر کی ہیں اسی طرح جکارتہ میں مفت تعلیم کے لیے ایک بہت بڑی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا اسی طرح عربی زبان کی تعلیم کے لیے متعدد ادارے اور انسٹی ٹیوٹ بنائے ہیں۔ سعودی عرب نے انڈونیشیا میں سو سے زیاده دینی مدارس قائم کیے ہیں اور ان میں وہابی سلفی نظریات کے عرب اساتذه کو تعینات کیا ہے۔ انڈونیشیا کی سرکاری یونیورسٹی کے پروفیسر اور دانشور دین وحید کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سلفیت کے ذریعے اس ملک میں انتہا پسندی، فرقہ واریت وہابیت اور دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا مرکز جکارتہ کا اداره "عربی اسلامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" ہے جس کے تمام تر اخراجات سعودی حکومت کی طرف سے ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی عربی زبان کی تعلیم کے لیے بنائی گئی تھی اور اب اس میں تین ہزار پانچ سو طالب علموں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوه ہزاروں انڈونیشین طلباء کو سعودی عرب میں اعلی تعلیم کے لیے تعلیمی  اسکالرشپ دئے جاتے ہیں۔

فلپائن میں بھی پچاس لاکھ مسلمان بستے ہیں اور بعض اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں دو ہزار سے زائد دینی مدارس کام کر رہے ہیں۔ ان میں آدھی تعداد جنوبی جزیره "مینداناؤ" میں موجود ہے۔

فلپائین کے نائب وزیر دفاع اور دہشت گردی مخالف فورس کے سربراه ریکارڈ و بلالکا فلو کا کہنا ہے کہ ان دینی مدارس میں اسلامی تعلیمات کا فقدان جبکہ اعتدال پسندی اور فرقه واریت کے خلاف نظریات کی تعلیم دینا ہے۔ دوسری طرف اسلامک فاؤنڈیشن کے ایک ذمہ دار شخص عبدالخالق مادونو کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے تمام دینی مدارس عوام کے عطیات سے چلتے ہیں اور یہ عطیات بہت کم ہوتے ہیں جن سے مدارس اور اساتذه کے اخراجات کو پورا نہیں کیا جا سکتا لہذا وسائل کی کمی اس بات کا باعث بن سکتی ہے کہ سلفی اور تکفیری نظریات کے حامل اساتذه اور مدارس کے انتظامیہ کو مالی امداد دیکر ان مدارس میں تکفیریت  اور سلفیت کے اثر و رسوخ  کو تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری