امریکی روزنامہ: ٹرمپ کو ایران کی تاریخ سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے


امریکی روزنامہ: ٹرمپ کو ایران کی تاریخ سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے

ایک امریکی روزنامہ کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاوس ایران پر حملہ کرنے کا بہانہ تلاش رہا ہے حالانکہ ٹرمپ کو ایرانی تاریخ سے عبرت حاصل کرنا چاہئے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکی روزنامہ بالٹیمور سان نے ایک مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے "ایران محور پر ٹرمپ کے لئے تاریخی عبرت"، یہ مقالہ ایسے موقع پر شائع ہوا ہے جب وائٹ ہاوس میں ایران پر حملے کا جواز ڈھونڈنے کے لئے بحث و مباحثہ کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اس سلسلے میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے اپنے مشیروں سے ایک تاریخی عبرت آموز واقعہ سن لینا چاہئے۔

اس مقالہ کے مطابق امریکی صدر کو ان دلائل پر توجہ دینی چاہئے جن پر ایرانی رہنما عمل کرتے ہیں۔

امریکہ کو 1953 میں ایران کی منتخب حکومت کے خلاف کی گئی سازش کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ کیا امریکہ بھی اس سازش میں برطانیہ کا مددگار رہا تھا؟ اس سلسلے میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن ایرانی عوام امریکہ کو برطانیہ کے برابر کا مجرم مانتی ہے۔

امریکی قومی سلامتی مشیر ٹرمپ کو بتائیں کہ 1980 میں جب ایران امام خمینی رہ کی زیر قیادت تھا اس وقت صدام کیجانب سے مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں داخل ہوا، اس آٹھ سالہ جنگ میں صدام نے ایران کے دو لاکھ پچاس ہزار افراد کا قتل عام کیا، اگر اس وقت ایران کی آبادی کا اندازہ لگائیں تو یہ تناسب امریکہ کے موجودہ ڈیڑھ ملین آبادی کے مساوی ہوتا ہے۔

اس امریکی روزنامہ نے لکھا ہے کہ یہ سب خیالی داستان نہیں ہے۔

ریگن، ڈیک چینی اور دیگر حکومتیں صدام کی حمایت کر رہی تھیں اور ایران پر حملوں کیلئے گرین سگنل دیتے ہوئے صدام کو فوجی امداد پہنچا رہے تھے۔ قومی سلامتی کے مشیر ٹرمپ کو بتائیں کہ ان سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ صدام کی فوج کیمیائی اسلحے کا استعمال کر رہی تھی۔

ٹرمپ کے مشیر انہیں بتائیں کہ 1998 میں امریکی جنگی بیڑے ونسنس نے کس طرح ایران کے مسافر بردار طیارے کو نشانہ بنایا جس میں 290 عام شہری سوار تھے جن میں اکثر افراد حج کرنے مکہ مکرمہ جا رہے تھے، ٹرمپ کو بتایا جائے کہ یہ لوگ ایران کی حدود میں ہی ہماری جنگی بیڑے کا نشانہ بنے جس کے لئے امریکہ کو ندامت کا اظہار کرنا پڑا اور 61۔8 ملین ڈالر ہرجانہ چکانا پڑا۔

ٹرمپ کے مشیر انہیں بتائیں کہ اس سلسلے میں خوب غور و فکر کرے جنگ کے علاوہ بھی کئی سیاسی راہ حل موجود ہیں۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری