داعش ایک خطرناک وائرس ۔۔۔ (دوسری قسط)


داعش ایک خطرناک وائرس ۔۔۔ (دوسری قسط)

جنوب مشرقی ایشیا میں داعش کے اثر و نفوذ کی ایک بنیادی وجہ ان علاقوں میں موجود غربت و افلاس ہے اس کے علاوه اس علاقے کی حکومتوں میں طبقاتی تضاد، نا انصافی اور عوام الناس کو اہمیت نہ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل کیوجہ سے نوجوان نسل بہت جلد دہشت گرد گروہوں کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ملائشیا بھی اسی طرح کا ایک ملک ہے جس میں مذکوره مسائل کی وجہ سے مسلمانوں کی نوجوان نسل پرکشش نعروں سے بہت جلد مرعوب ہو جاتی ہے۔ ملائشیا میں اکثریت ملائشین نسل کے افراد کی ہے لیکن ملک کی اقتصادی، تجارتی اور اعلیٰ اختیاراتی صورت حال پر چینی نژاد افراد کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے ملائشیا میں ایک واضح طبقاتی فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ملائشیا کے مقامی لوگوں کی آبادی ساٹھ فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن یہ اکثریتی آبادی ہندوستانی اور چینی نژاد اقلیت سے مالی اور اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور ہیں۔ ہندوستانی اور چینی نژاد افراد نے تجارت اور اقتصادی معاملات پر قبضہ جما رکھا ہے دوسری طرف حکمران جماعت "آسنو" ملک میں اسلامی تعلیمات کے نفاذ میں زیاده دلچسپی نہیں لیتی یہی وجہ ہے کہ مختلف اسلامی گروه من جملہ ملائشیا کی جماعت اسلامی اور دیگر انتہا پسند مذہبی گروه اسلامی تعلیمات کے نام پر ملک میں تکفیری وہابی نظریات کا پرچار کر رہے ہیں۔

انڈونیشیا میں بھی "سوہارتو" کی ڈکٹیٹر شب کی وجہ سے ملکی آبادی کئی گروہوں میں تقسیم ہے اسی طرح مشرقی تیمور کی علیحدگی اور خود مختاری نے بیرونی طاقتوں کی مداخلتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے بھی یہ علاقے علیحدگی پسندی کے راستے پر چل نکلے ہیں جو جکارتہ کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ انڈونیشیا کی حکومت ابھی تک تو ان علیحدگی پسند گروہوں پر قابو پانے میں کامیاب ہے لیکن اس کے نتیجے میں حکومت کو بہت سے مشکلات کا سامنا ہے۔

انڈونیشیا کے موجوده صدر "جوکو ویدو دو"(Joko Widodo) کو مختلف طرح کے مخالف گروہوں کا سامنا ہے جن میں مذہبی اور سیاسی دونوں گروه شامل ہیں۔ حال ہی میں ایک چینی نژاد گورنر کی طرف سے قرآن پاک کی توہین اور حکومت کی طرف سے اس پر سخت موقف نہ لینے کی وجہ سے حکمران  جماعت کے خلاف عوام میں شدید رد عمل پایا جاتا ہے۔

 انڈونیشیا میں غربت و افلاس میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے آکسفام نامی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انڈونیشیا کو ایسا ملک قرار دیا ہے جہاں اقتصادی عدم مساوات اپنے عروج پر ہے۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ انڈونیشیا کے چار سرمایہ داروں کے پاس 25  ارب ڈالر کا سرمایہ ہے۔ یہ رقم ملک کی چالیس فیصد آبادی کے برابر سرمایہ ہے۔ انڈونیشیا کی کل آبادی آڑھائی سو ملین ہے فلپائین اور اسکائی لینڈ میں ملائشیا  اور انڈونیشیا سے بھی زیاده غربت ہے جس کے علاقے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ایک اور اہم نکتہ ان ممالک میں سرگرم سماجی نیٹ ورک (سوشل میڈیا) ہے ان ملکوں میں فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیره کثرت سے زیر استعمال ہیں یہی وجہ ہے کہ داعش جیسے گروه اس نیٹ ورک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور نوجوان نسل کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ دہشت گرد گروه سماجی نیٹ ورک کے مختلف زاویوں سے نوجوانوں کو جذب کرتے ہیں اور انہیں شام اور عراق وغیره میں داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ جنگ کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت صورت حال برعکس ہو گئی ہے اور یہ دہشت گرد شام اور عراق سے واپس اپنے ملکوں کی طرف لوٹ رہے ہیں لیکن "آسیان" کے مختلف ممالک من جملہ انڈونیشیا، ملائشیا، سنگا پور اور تھائی لینڈ وغیره میں سوشل نیٹ ورک کے ذریعے مسلمان عوام، بالخصوص نوجوان نسل کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔

سنگاپور کے وزیر دفاع نے  گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ  داعش نے گزشتہ تین سالوں میں القاعده سے زیاده افراد کو اپنی طرف جذب کیا ہے۔ القاعده جو کام گزشتہ دس سالوں میں نہیں کر سکی داعش نے یہ کام تین سالوں میں انجام دیا اور القاعده سے زیاده لوگوں کو اپنی تنظیم کا رکن بنایا ہے۔

ملائیشا کی فیڈرل پولیس کے مشتبہ اور دہشت گردی سے مقابلے کے لیے بنائے گئے ادارے کے ماہر احمد المحمودی کے تجزیے کے مطابق شام اور عراق میں ناکامی کے بعد داعش گروه نے اپنے اہم افراد کو جنوب  مشرقی علاقوں میں بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ چونکه شام اور عراق میں بہت سے علاقے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے چھن چکے ہیں لہذا یہ گروه اس وقت نفسیاتی مشکلات کا بھی شکار ہے۔

ملائشیا کے اخبار نیو اسٹریٹ ٹائمز کے مطابق داعش کا ایک ہدف ملائشیا بھی ہے اور اس نے مشرق وسطیٰ سے اپنے افراد کو نکال کر ملائشیا کے مختلف صوبوں میں بھیجنا شروع کر دیا ہے۔

ملائشیا کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق ملک میں داعش کے حامیوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیاده ہے۔ ملائشیا کی پولیس دارلحکومت کوالالامپور کے بعض علاقوں "بنگسر"، "سولاریس" کو داعش کے مطلوبہ علاقے قرار دیا ہے۔ 

معروف ریسرچ سنٹر آئی ایچ جیز نے بھی حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ 2017 میں داعش جنوب مشرقی ایشیا میں موجود ایک خاص علاقے کو اپنا مرکز قرار دینے کا اعلان کرے۔ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ داعش کا آئنده مرکز جنوبی فلپائن میں بن سکتا ہے۔

 جنوب مشرقی ایشیا میں داعش کی روک تھام کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ان ممالک میں موجود دہشت گردی کے خلاف مقابلے کے لیے بنائے گئے قانون ہیں جن پر نظرثانی کی سخت ضرورت ہے۔ جکارتہ سے چلنے والی ایک ویب سائیٹ "جکارتہ گلوب" نے انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کے ترجمان ذوالکفیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان افراد کے بارے میں جو دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور بعد میں دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں اور کچھ  عرصے بعد واپس آجاتے ہیں ان کو سزا دینے اور گرفتار کرنے کے لیے ملکی آئین میں کسی طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

انڈونیشیا کے سیاسی اور قانونی مسائل کے وزیر "لوهوت چاند جایتان" کا کہنا ہے کہ اس طرح کے افراد کو صرف عارضی طور پر حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ انڈونیشیا کے سو سے زائد دہشت گرد مشرق وسطی سے واپس انڈونیشیا واپس آچکے ہیں ان میں سے بعض مختلف دہشت گردانہ کاروائیوں میں باقاعده شرکت کر چکے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف حلقے گزشتہ چند سالوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ ان ممالک میں داعش اور اس  طرح کے دیگر انتہا پسند اور دہشت گردہوں کے اثر و رسوخ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

 داعش کے وه افراد جو شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہیں وه ایک باقاعده تنظیمی صورت میں اپنے خاص افراد کو ایک خاص تنظیمی نیٹ ورک کے تحت مختلف علاقوں میں تقسیم کر رہے ہیں ان کا یہ تنظیمی نظام مکڑی کے ایک جالے کی طرح ہے جو ایک مرکز سے کنٹرول ہوتا ہے۔ داعش کا مرکز اپنی تمام شاخوں پر گہری نظر رکھتا ہے اور جہاں ضرورت پڑتی ہے بعض اوقات وہاں اپنے لوگوں کا قتل عام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

داعش کا مرکز اس وقت بعض افراد کو ایک باقاعده منصوبے کے تحت شام اور عراق سے دوسرے ممالک میں منتقل کر رہا ہے تاکہ یہ لوگ مختلف علاقوں میں جا کر داعش کے لیے مزید افراد کو تیار کریں اور داعش کا مرکز جب بھی کسی علاقے میں کوئی کارروائی کرنا چاہے تو افرادی قوت کی کمی آڑے نہ آئے۔

جنوری کے اوائل میں ترکی میں نائٹ کلب پر حملہ اور ہندوستان میں دو بھائیوں کی گرفتاری جو دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ داعش مختلف علاقوں میں اپنے یونٹ اور خفیه سیل بنانے میں مصروف ہے اور وه ان علاقوں کی مقامی لوگوں کو اپنے دہشت گردانہ مقاصد کے حصول کے لیے آماده و تیار کر رہا ہے۔

بہر حال اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے حکمران اور ذمہ دار افراد داعش اور انتہا پسند گروہوں پر قابو پانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ کریں۔ اپنی سیکورٹی کو بہتر بنانے کے لیے باہمی تعاون کریں اور داعش کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔ اسی طرح سوشل نیٹ ورک کی سخت نگرانی کی جائے کیونکہ داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد گروه اس نیٹ ورک سے بھرپور استفاده کرتے ہوئے ساده لوح مسلمانوں کو اپنی تنظیموں اور گروہوں میں جذب کر رہے ہیں۔ داعش کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے دینی مدارس اور فلاح و بهبود کے لیے کام کرنے والے اداروں  اور تنظیموں پر بھی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملائشیا، انڈونیشیا، جنوبی فلپائن اور تھائی لینڈ وغیره میں تکفیری وہابی گروہوں کے کئی فلاحی ادارے سرگرم عمل ہیں جو فلاح و بهبود کے نام پر نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ شیعہ مخالفت کو بھی انہوں نے اپنی اولین ترجیح قراردے رکھی ہے۔ سعودی عرب کا سرمایہ اور ان ملکوں میں موجود غربت و افلاس  تکفیری افکار و نظریات کے فروغ کا باعث بن رہا ہے۔

"داعش اور اس طرح کے دیگر گروہوں کی نظریاتی اساس کیا ہے، اس کا اگلی قسطوں میں جائزہ لیں گے"۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری