ایران ـ چین ـ روس کے محاذ نے امریکہ کو چیلنج کردیا ہے / بہت سے ممالک ایران جیسے علاقائی اثر و رسوخ کے خواہشمند ہیں


ایران ـ چین ـ روس کے محاذ نے امریکہ کو چیلنج کردیا ہے / بہت سے ممالک ایران جیسے علاقائی اثر و رسوخ کے خواہشمند ہیں

ڈنمارکی روزنامے برلینگسکے (Berlingske) نے لکھا ہے کہ امریکہ کی مسلسل غلطیوں اور ایران ـ چین ـ روس کی طرف سے نئے اور طاقتور اتحاد کی وجہ سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ [مشرق وسطی] کے تزویری خطے میں امریکہ کا اثر و رسوخ تیزی سے زوال پذیر ہوچکا ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: ڈانمارکی روزنامے برلینگسکے (Berlingske) نے لکھا ہے کہ ایران ـ روس ـ چین کے محاذ نے امریکہ کو چیلنج کردیا ہے / بہت سے ممالک ایران جیسے علاقائی اثر و رسوخ کے خواہشمند ہیں / امریکی کی مسلسل غلطیوں اور ایران ـ چین ـ روس کی طرف سے نئے اور طاقتور اتحاد کی وجہ سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ [مشرق وسطی] کے تزویری خطے میں امریکہ کا اثر و رسوخ تیزی سے زوال پذیر ہوچکا ہے۔

گوکہ ڈینش اخبار کا رویہ اور نقطہ نظر ایران مخالف ہے لیکن اس نے ایران ـ چین ـ روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نیز امریکہ کے اثر و نفوذ کے رو بہ زوال ہونے کا اعتراف کرہی لیا ہے۔

برلینگسکے ڈانمارک کا سب سے پرانا اخبار ہے جو لکھتا ہے کہ ایران ـ چین ـ روس کا محاذ علاقے میں ایک ناقابل انکار علاقائی طاقت میں بدل چکا ہے اور آج یہ اتحاد امریکی طاقت کو چیلنج کرچکا ہے۔

یادداشت کا متن ملاحظہ ہو:

مشرق وسطی میں 6 سالہ عدم استحکام نے جمہوری حکومتوں کے قیام کے مسئلے کو  ماند کردیا ہے؛ صرف تین کھلاڑی ہیں جو ان طوفانی لہروں پر سوار ہوئے ہیں اور یہ تین کھلاڑی مغربی طاقتوں کے نہایت منہ زور رقیب ہیں؛ ایران، چین اور روس۔ یہ محاذ جمہوریت کے خلاف ہے (1) اور محاذ میں شامل ممالک علاقے میں مغرب کی تزویری حکمت عملیوں کی ناکامی کے بعد مشرق وسطی میں داخل ہورہے ہیں۔

روس نے 2 برسوں کے عرصے میں شام کی جنگ اور اس کے نتائج کا پانسا پلٹ دیا اور اس ملک میں اپنے تزویری مفادات کو محفوظ بنایا۔ شام میں اس وقت مغربی ممالک کا اثر و رسوخ روس کے اثر و رسوخ کے دباؤ کا سامنا کررہا ہے اور ماسکو سمجھتا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کی کامیابیاں دہرا سکتا ہے۔

نیوزویک کی رپورٹ کے مطابق روس اس وقت لیبیا، یمن اور مصر میں اپنی موجودگی کو تقویت پہنچانے میں مصروف ہے۔ عنقریب روس ایسے علاقے میں پلٹ کر آئے گا جو عرصہ دراز سے امریکہ کے زیر تسلط رہا ہے۔

یہ داستان ایران کے بارے میں بھی صادق ہے

یہ شیعہ ملک ہے، جو کبھی تنہائی کا شکار تھا، کبھی امریکہ نے اس کو شیطانی محور کا حصہ قرار دیا تھا اور ہر وقت امکان ظاہر کیا جاتا تھا کہ امریکہ یا اسرائیل اس پر آج نہیں تو کل حملہ کرے گا لیکن یہ ملک آج ایک ایسی زبردست طاقت میں بدل چکا ہے جو اپنے اثر و رسوخ کو تیزرقتاری کے ساتھ وسعت دے رہا ہے۔

امریکہ عراق سے پسپا ہوا تو اس ملک میں ایران کے اثر و رسوخ کے لئے ماحول فراہم ہوا۔ ایرانی افواج نے بالکل روسی بموں کی طرح شام کی جنگ کے رخ کو بشار اسد کے حق میں بدل دیا؛ اسی پالیسی کے تحت آج ایران عراق اور شام کے راستے سے بحیرہ روم اور جولان کی پہاڑیوں تک رسائی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ایران اسی راستے سے اپنی افواج اور 6 سالہ جنگی تجربہ رکھنے والی عراقی رضاکار فورسز کی لام بندی کا انتظام کرسکتا ہے۔ ایران بہت تھوڑے سے عرصے میں مشرق وسطی کے کئی علاقوں میں پوری طاقت کے ساتھ حاضر ہوا ہے جبکہ دوسرے ممالک نے ان ہی علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس ملک نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے مشرق وسطی میں قدم رکھا ہے۔ چین کی آمد کا اولین اور اہم ترین سبب مشرق وسطی کا تیل اور دوسرے قدرتی وسائل ہیں؛ جس وقت مغرب نے ایران پر پابندی لگارکھی تھی چینیوں نے اس ملک کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھا اور اب جبکہ ایٹمی معاہدے کے بدولت ایران کے دروازے مغربی سرمایہ کاروں کے لئے کھل گئے ہیں، چینیوں کو اس ملک میں بہت اہم حیثیت حاصل ہوئی ہے۔
امریکی مجلے "فارن افئیرز" نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: اگر چین آخر کار مجبور ہوجائے کہ ایک بنیادی اور اصلی شریک اپنے لئے منتخب کرے تو ممکن ہے کہ ایران کو منتخب کرے۔ ایران کے پاس چین کے پیش کرنے کے لئے بہت سے تزویری مواقع موجود ہیں۔ ایران علاقے کی سلامتی کے سلسلے میں چین کو گہرا نظریہ دے سکتا ہے۔ اور پھر ایران کا نظام حکومت بھی چینی صدر کی طرح بین الاقوامی نظام کی تبدیلی اور امریکی اثر و رسوخ میں کمی کی خواہش رکھتا ہے۔

ادھر چین اپنی سرحدوں سے باہر پہلا فوجی اڈا افریقی ملک جیبوتی میں تعمیر کر رہا ہے۔ یہ تزویری لحاظ سے بہت اہم مقام ہے، یمن کی ساحلی پٹی کے جنوب اور بحیرہ احمر (یا بحیرہ قلزم) کے دہانے پر۔

گذشتہ 8 سال کے عرصے میں مشرق وسطی میں امریکی پالیسیاں انفعالیت (Passiveness) کا شکار ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ایران ـ چین ـ روس محاذ  کو روزافزوں اہمیت ملی ہے۔

حال ہی میں نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا: امریکہ نے عراق کے دروازے کھلے چھوڑ دیئے تو ایران عراق پر مسلط ہوگیا۔

ان تین ملکوں کے مشرق وسطی میں کردار ادا کرنے کے امکان کا ایک سبب یہ ہے کہ عربی بہار [Arabic Spring] کی تحریکیں جمہوری حکومتیں قائم کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اور عربی بہار کے 6 سال گذرنے کے بعد مشرق وسطی کی اکثر حکومتیں بالکل اسی طرح استبدادی، آمر اور جابر ہیں جس طرح کہ یہ عربی بہار سے پہلے تھیں اور لگتا ہے کہ انتہا پسند قوتیں اس علاقے کی ریگستانوں سے ابھر کر سامنے آ‏ئیں گی۔

عراق کی خاتون سیاستدان نجاۃ الطائی نے نیویارک ٹائمز کے ساتھ علاقے کے حالات کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے ہوئے کہا: ایران امریکہ سے زیادہ ہوشیار اور زیرک ہے۔

یہی تعریف روس اور چین کے لئے بھی صادق ہے

ان ممالک نے بہر صورت امریکی رویوں میں تبدیلی کے عین وقت میں اپنے آپ کو علاقے میں آنے والی متبادلی قوتوں کے کے طور پر پیش کردیا ہے اور اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ ممالک پورے علاقے پر مسلط بھی ہوئی ہیں، کیونکہ بہرحال علاقے میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ تین ممالک امریکی قوت کو تسلسل کے ساتھ چیلنج کرتے رہیں گے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے مرکز برائے تزویری و بین الاقوامی مطالعات [Center for Strategic and International Studies (CSIS)] نے اس سلسلے میں لکھا ہے: شاید امریکہ کے ساتھ موازنے کی صورت میں روس میدان کو جیت نہ سکے لیکن وہ کھیل کو درہم برہم ضرور کرسکتا ہے کیونکہ دوسروں کے منصوبوں کے نفاذ کے انسداد کے لئے کچھ زیادہ طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی!

امریکہ نے 2003 سے لے کر [بزعم خویش] عراق کو جمہوری ملک بنانے کے لئے جتنی رقم ضائع کی ہے اس سرمائے سے کہیں زیادہ ہے جو روس، چین اور ایران نے مل کر اس ملک میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لئے خرچ کی ہے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کی حصولیابیاں کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں ہیں۔ (2)

اگر آج کے مشرق وسطی کے حالات اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت نمایاں فرق دکھائی دے گا: ان دنوں روس کو مجبور ہو کر شام میں اپنا بحری اڈا خالی کرنا پڑا، چین اس علاقے میں کوئی اثر و نفوذ نہیں رکھتا تھا، اور ایران بھی ابھی 8 سالہ جنگ کے نتائج کے ساتھ دست و گریبان تھا۔

[امریکی اثر و رسوخ کی لاش پر نوحہ گری کرنے والا ڈینش لکھاری نہایت افسوس کے ساتھ حقائق کو توڑ مروڑ کر مزید لکھتا ہے: ] حالیہ 6 سالہ واقعات نے حالات کو مکمل طور پر بدل دیا؛ جمہوریت مخالف قوتیں علاقے میں پلٹ کر آئی ہیں، یہ طاقتیں صرف امریکہ کی حمایت یافتہ جمہوریت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ عربی بہار میں مصروف عوام کی جمہوریت کے بھی خلاف ہیں۔ (3)

گویا امریکہ اور مغربی ممالک نے افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن کو صرف اور صرف جمہوریت کے قیام کے لئے تباہ و برباد کردیا ہے اور اس کے دوست ممالک جیسے سعودی عرب وغیرہ میں جمہوریت فروشی کی منڈی دنیا کے لئے مثالی حیثیت رکھتی ہے!!

سوال یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کو پالنا، عوام کو بموں اور کمزور شدہ یورینیم کا نشانہ بنانا، دہشت گردوں کو امداد فراہم کرنا اور انہیں موت کے منہ سے بچا کر دوبارہ مسلح کرنا، ایک میلین سے زیادہ عراقیوں کا قتل، عراق کی تقسیم کے منصوبے بنانا، اور کردستان کی خودمختاری کے لئے تگ و دو کرکے پورے علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرنا نیز پڑوس میں استبدادی بادشاہتوں کو کھربوں ڈالر کا ہتھیار دینا اور انہیں عراق میں خون خرابہ کرنے کی کھلی چھٹی دینا کیا، عراق کو جمہوری ملک بنانے کے لئے تھا؟

گویا یہ امریکہ اور ڈانمارک سمیت یورپی ممالک نہیں بلکہ ایران، چین اور روس تھے جنہوں نے عربی بہار کی تحریکیں اٹھنے کے بعد لیبیا کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کرکے وہاں کے انقلاب کو کچل دیا؛ یمن کے انقلاب کو آج بھی کچل رہے ہیں، بحرین کی آزادی کی تحریک کو کچل رہے ہیں اور عرب ممالک میں مزید جمہوری تحریکوں کا گلا گھونٹنے کے لئے شام می دہشت گردی کی حمایت کی!!! گویا دنیا آج بھی دنیا کو مغربیوں کی آنکھوں سے دیکھتی ہے اور ان کے ہر درست اور نادرست تجزیئے کو آنکھیں بند کرکے مان لیتی ہے چنانچہ مغربی قلمکار دھڑلے سے بدیہیات تک کا انکار کردیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی کے عسکری اور تزویری حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے فکری حالات بھی کافی حد تک بدل چکے ہیں اور ان حالات کی تبدیلی میں استکبار کے خلاف برسرپیکار تحریک مزاحمت کا کردار ناقابل انکار ہے لیکن مندرجہ بالا سطور میں اس حقیقت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری