3 عرب ممالک کا دورہ؛ اردوغان کیوں سعودی عرب کے قریب ہوتا جارہا ہے ؟


3 عرب ممالک کا دورہ؛ اردوغان کیوں سعودی عرب کے قریب ہوتا جارہا ہے ؟

اردوغان کے عرب ممالک کے سفر پر "زیارت اور تجارت" والا محاورہ صادق آتا ہے اس سفر کے دوران بعید نہیں کہ وہ ترکی کی حکمران پارٹی کے مفادات کی خاطر اپنے موقف میں تبدیلی لے آئیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق رای الیوم کے ایڈیٹر عبد الباری عطوان نے اردوغان کے 3 عرب ممالک کے دوروں کے متعلق لکھا ہے کہ  اردوغان کے سفر پر زیارت اور تجارت والی ضرب المثل صادق آتی ہے، بعید نہیں کہ اردوغان اپنے مفادات کی خاطر ایک بار پھر اپنے موقف میں تبدیلی لے آئیں۔

قطر سعودی بحران میں اردوغان بن گیا پانچواں ثالث

قطر سعودی بحران کو ابھی دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا ہے جبکہ یہ پانچواں نام ہے جو فریقین کے درمیان ثالثی کا کردار نبھانے کی کوشش یا اس کی پیشکش کر رہا ہے۔

عرب ممالک کے دورے پر جانے والے اردوغان برطانوی، امریکی، جرمنی اور فرانسیسی وزرائے خارجہ کے بعد پانچویں فرد ہیں جو اس مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔

البتہ یہ تب ہے جب ہم کویت کو اس فہرست میں شامل نہ کریں کیوںکہ وہ خود اس عرب ممالک میں سے ہے جبکہ یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کسی ایک ملک کی نمائندہ نہیں ہے۔

اردوغان کی کامیابی کا کتنا امکان ہے ؟

قطر سعودی بحران میں ثالثی کا کردار ادا کرنے میں ترکی کو ان سے پہلے یہ کوشش کرنے والوں کی نسبت زیادہ کامیابی ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں اردوغان کے لئے دو اہم مشکلات ہیں؛

امیر قطر کی آخری تقریر اور حریف کی دھمکیوں اور دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کا اس بحران کے حل کے لئے بنا کسی شرط کے مذاکرات کی بات کہنا۔

دوحہ میں ترک افواج کے چھٹے فوجی دستے کا پہنچنا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ترکی قطر کا حامی ہے اور اردوغان نے اس بات کی تردید بھی نہیں کی ہے بلکہ سعودیہ جانے سے پہلے ایک پریس کانفرنس می اس بحران کو گفتگو کے ذریعے حل کرنے کے قطری موقف کی تائید کی ہے۔

امیر قطر کا سختگیر بیان

بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ امیر قطر کا خطاب نرم ہوگا اگر وہ سعودی اتحاد کی تمام شرائط کو قبول نہ بھی کریں تو بعض شرائط پر نرم رویہ ضرور اختیار کریں گے۔

کیا ترکی کی ثالثی میں کوئی خاص بات ہے ؟

مذکورہ باتوں کے بعد بھی کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ اس سفر میں اردوغان کا کوئی خاص ایجنڈا ہے یا نہیں جو انہیں دوسروں سے الگ کر سکے لیکن ایک بات جو واضح ہے وہ یہ کہ سعودی اتحاد کے دو رکن ممالک مصر اور متحدہ عرب امارات کو ترکی کی ثالثی ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔

ارمنستان کے سفر پر گئے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کا ترکی کو پیغام

اردوغان کے عرب ممالک کے دورے سے قبل ارمنستان کے دورے پر گئے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کا آرمینیوں کی نسل کشی کے شکار افراد کے مقبروں کی زیارت کرنا ایک اہم پیغام کا حامل ہے۔

ممکن تھا اس بات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اردوغان اپنے سفر کو ملتوی کر دیتے کیوںکہ ترکی اور بذات خود اردوغان آرمینیا مسئلے پر بہت حساس ہیں کیوںکہ آرمینیوں کی نسل کشی کا براہ راست الزام ترکی پر عائد ہوتا ہے جسے ترکی سختی سے مسترد کرتا رہا ہے۔ 

اسی دوران ترکی میں ہونے والے ناکام فوجی بغاوت کی سازش میں متحدہ عرب امارات کی شمولیت کو ترکی نے ابھی فراموش نہیں کیا ہے اور ترک میڈیا اور عربی چینلز متحدہ عرب امارات کو اس سازش میں شامل قرار دیتے رہے ہیں اور اپنے دعوے کو بار بار دہراتے رہے ہیں۔

امارات نے ترکی کے زخموں پر نمک چھڑکا

متحدہ عرب امارات کی سرکاری نیوز ایجنسی نے خبر دی ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں نسل کشی کے شکار افراد کے قبرستان پر جاکر عرب شاہزادے نے پھول چڑھائے اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک منٹ کے لئے خاموشی اختیار کی، ان خبروں نے ترکی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

ایک اسلامی ملک کے وزیر خارجہ اور حکمران خاندان کی معروف شخصیت کی جانب سے آرمینیوں کے لئے شہید کا لفظ استعمال کرنا ایک ایسا فعل تھا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ صرف اور صرف اکسانے کیلئے ہی کیا گیا۔

سعودی اتحاد ترکی سے خفا کیوں ہے ؟

قطر کے مد مقابل آنے والے چاروں ممالک ترکی کو مخالف فریق مانتے ہیں اور قطر میں اس کے فوجی اڈے کو فورا بند کرنے کے خواہاں ہیں۔ سعودی اتحاد کے ناراض ہونے کا سبب ایک تو یہ ہے کہ ترکی نے اس فوجی اڈے میں جدید جنگی سامان سے لیس اپنے  فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے مزید یہ کہ قطر کو ضروری اشیاء فراہم کرنے میں پیش پیش رہا جس کے سبب دوحہ کے خلاف عائد پابندیوں کے اثر کو ختم کر دیا گیا ہے۔

اردوغان اس بحران سے فائدہ اٹھا رہے ہیں  

ایسا ممکن ہی نہیں کہ اردوغان اس بات سے غافل ہوں کہ سعودی اتحاد کے دو ممالک انہیں پسند نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ وہ اس بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودیہ سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہو تاکہ ترکی کے لئے سعودی بازار کے دروازے کھل جائیں اور دو ارب ڈالر کا وہ اسلحہ معاہدہ جسے سعودیہ رد کر چکا ہے، پھر بحال ہو جائے۔

اردوغان کا سنی مذہب کی طرف جھکاو

اردوغان ایران دشمنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودیہ کی قیادت میں اہل سنت محاذ کا حصہ  بننا چاہتے ہیں۔ اس صورت میں قطر کا اپنے حریف کو امتیاز دینا اردوغان اور ان کی حکومت کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے اور اسے سیاسی اسلام اور اس سے وابستہ تنظیموں کی حمایت کے الزام سے آزاد کرا سکتے ہیں، وہ مصر کے ساتھ اپنے تعلقات بھی سدھار سکتے ہیں اور قطر – سعودی بحران کے درمیان کسی ممکنہ جنگ و جدال کی صورت میں اس فتنہ سے محفوظ بھی رہ  سکتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے بعد اردوغان کے سفر کے بارے میں جو سب سے مناسب تعبیر ہے وہ عبات اور تجارت یا وہی تجارت اور زیارت ہے۔ یہ سفر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی نیت سے ہو رہا ہے لیکن ممکن کہ اصل ہدف سعودیہ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا بھی ایک ہدف ہو۔

اردوغان کے موقف میں تبدیلی کا امکان

بعید نہیں کہ اردوغان عرب ممالک کے لئے کچھ امتیاز کے قائل ہو جائیں جس میں قطر میں مزید فوجی نہ بھیجنا اور کسی بھی ممکنہ جنگ میں شمولیت اختیار نہ کرنے کے وعدہ بھی شامل ہیں کیوںکہ اردوغان عملی سیاست کے لئے معروف ہے لہذا اگر وہ اپنا مفاد دیکھیں گے تو اپنے موقف میں تبدیلی لانے میں بالکل بھی نہیں ہچکچائیں گے۔

اگرچہ اس سفر سے بہت زیادہ امیدیں نہیں ہیں لیکن بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی اردوغان کی میٹنگ سے کسی بھی غیر متوقع نتیجہ کی امید کی جا سکتی ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری