لاہور !!! ہم بھی دوسری اقوام کی طرح اپنے پرچم اور اپنے پاسپورٹ پر فخر کرنا چاہتے ہیں !


لاہور !!! ہم بھی دوسری اقوام کی طرح اپنے پرچم اور اپنے پاسپورٹ پر فخر کرنا چاہتے ہیں !

وہ جو مارے گئے سبزی منڈی لاہور میں ۔۔۔ وہ جو مارے گئے سبزی منڈی پاراچنار میں اور اس کے بعد کئی دھماکوں میں ۔۔۔ وہ جو کوئٹہ میں یا مستونگ میں مارے گئے بم دھماکوں یا ٹارگٹ حملوں میں ۔۔۔ وہ سب ایک جیسے تھے.

خبر رساں ادارہ تسنیم: وہ جو مارے گئے سبزی منڈی لاہور میں ۔۔۔ وہ جو مارے گئے سبزی منڈی پاراچنار میں اور اس کے بعد کئی دھماکوں میں ۔۔۔ وہ جو کوئٹہ میں یا مستونگ میں مارے گئے بم دھماکوں یا ٹارگٹ حملوں میں ۔۔۔ وہ سب ایک جیسے تھے، گوکہ شاید ان کی زبان ایک نہ ہو لیکن وہ سب انسان تھے، پاکستانی تھے اور مسلمان تھے یا اگر کچھ مسلمان نہ تھے تو ان کی انسانیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔

انہیں کس نے مارا؟

دہشت گردوں نے؟ یا حکمرانوں کی بے حسی نے یا ۔۔۔؟

میرے خیال میں انہیں ہم نے مارا

اس لئے کہ ہم دوسرے کی موت پر یا تو خوش ہوتے ہیں کہ فلاں مذہب کا پیروکار مرا ہے یا خوش ہوتے ہیں کہ وہ جو مارا گیا وہ کوئی اور تھا اور میں بچ گیا ۔۔۔

خودی کو کر بلند ۔۔۔ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا اور ہمارے بچے بھی جانتے ہیں لیکن خودی کا مطلب آج تک ہمیں کسی نے سمجھایا نہیں ۔۔۔ یا پھر جنہیں ہمیں یہ سب سمجھانا چاہئے وہ خود سمجھنے کی قوت سے محروم ہیں ۔۔۔

خودی انفرادی نہیں ہے ورنہ تو اقبال ہرگز نہ کہتے کہ "مٹا دے اپنی ہستی کو ۔۔۔۔" کیونکہ انفرادی خودی تکبر ہے اقبال کا خیال یہ تھا کہ ایک ملک کی سرحدوں میں رہنے والے انسان ایک "خود" "self" میں بدل جائیں، ایک ملت بنائیں۔

پاکستان میں پنجابی ہے، پٹھان ہے، سندھی اور مہاجر ہے بلوچ اور کشمیری ہے لیکن پاکستانی کوئی نہیں، گو کہ ایک خاص علاقے کے کچھ لوگ ممکن ہے کہ اپنے کو "پاکستانیِ اعظم" کہلوانے کا شوق جتائیں، لیکن پاکستانی قوم قائد اعظم اور علامہ اقبال کا خواب تو ہوسکتی ہے لیکن عمل میں 70 سال گذرنے کے باوجود یہاں ملت سازی اور پاکستانی قوم بنانے کے لئے کوئی قدم آج تک نہیں اٹھایا گیا لہذا ۔۔۔

ملک میں بدامنی میں پہلا کردار ہمارے ناکارہ اداروں کا ہے کیونکہ اداروں میں جو لوگ ہیں وہ اس سرزمین پر رہنے والوں کو مختلف قوموں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ایک پاکستانی قوم کی حیثیت سے ہرگز نہیں کیونکہ انہیں بھی پاکستانی نہیں بنایا گیا وہ بھی کسی قوم یا کسی فرقے کے افراد ہی ہیں جو ملت پاکستان کے نہیں کہلا سکتے اور وہ پاکستان پر حکومت کرنے اور پاکستان کے لئے فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لیکن وہ حکومت بھی کرتے ہیں اور فیصلے بھی کرتے ہیں کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ان کا گریبان پکڑے اور کہہ دے کہ فلاں فیصلہ قوم کے مفاد میں نہیں کیونکہ جب قوم نہیں تو قومی مفاد کا تصور کیونکر ممکن ہے اور اس کے لئے جدوجہد کرنے والے کہاں سے آئیں گے؟

وہ صوبوں کے افراد کو مفتوحہ اقوام کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور ان کی موت و حیات کے فیصلے کرتے ہیں اور اگر کہیں بین الاقوامی کردار ادا کرنا پڑے تو ان کا کردار کسی ملک کے عدم استحکام پر مبنی ہوگا اور "ال" لگا کر تنظیمیں بنانے کی حد تک محدود ہوگا، اور وہ کردار صرف اداروں میں خاص قسم کے اعمال کی تربیت میں مہارت رکھنے والے افراد اور خاص قسم کی آئیڈیالوجیز سکھانے والے افراد کے سپرد کیا جائے گا اور پھر یہ "ال" کے ساتھ بننے والی یہ تنظیمیں سودے بازیوں میں ناراض ہوکر کبھی کبھی لاہور تک بھی آئیں گی اپنا حصہ وصول کرنے کی غرض سے جبکہ دوسرے علاقوں میں تخریب کاری کرنا تو ان کا فریضہ منصبی سمجھا جائے گا اور کوئٹہ کی پولیس اکیڈمی یا پاراچنار کی سبزی منڈی یا عیدگاہ مارکیٹ یا کوئٹہ کے سول اسپتال یا کراچی کے فلاں علاقے میں دھماکے سے پہلے اور اس کے بعد ان "ال" لگانے والی تنظیموں کے سربراہان حکام کے بنگلوں میں نظر آئیں گے، بریفنگ لینے اور رپورٹ دینے کے لئے ۔۔۔

کسی وقت کسی سفارتکار نے ان سطور کے راقم سے شاید غلطی میں کہہ ڈالا تھا کہ فلاں صوبے کے عوام گنہگار ہیں لہذا انہیں صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے ۔۔۔ یہاں تک ۔۔۔

تو اس قسم کی سوچ کیونکر قوم بنا سکتی ہے؟ اور تو اور بعض حکام کی منظوری سے بلوچستان میں صوبائی وزیر داخلہ بننے والے سرفراز بگٹی نے ارشاد فرمایا کہ: "لاہور دھماکے کے بعد کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کی سیکورٹی کا ازسرنو جائزہ لیا جارہا ہے"جبکہ کوئٹہ میں آئے روز خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور یہ وزیر امیر سب کہیں دبکے ہوئے ہوتے ہیں"۔

ایک صاحب نے لکھا: لاہور میں 2009 سے لے کر اب تک بیس سے زائد دھماکے ہوئے ہیں تو ان صاحب نے کیا کوئٹہ، پاراچنار، کراچی اور دوسرے علاقوں میں ہونے والے سینکڑوں دھماکوں کا حساب بھی رکھا ہے اپنے پاس؟ کیا لاہور میں دھماکے جرم ہیں اور دوسرے علاقوں میں جائز ہیں؟

اللہ کی لعنت ہو لاہور میں دھماکہ کرنے والوں، انہیں پالنے والوں، سہولت فراہم کرنے والوں، بنانے والوں اور ان کے کارکردگی پر خوش ہونے والوں پر کیونکہ یہ انسان اور انسانیت کے دشمن ہیں اور یہی پورے ملک میں یا پھر پوری دنیا میں انسان کے خون س ہولی کھیل رہے ہیں؛

افسوس ہے لاہور کے دھماکے پر، بےگناہوں کی زندگیوں کی تباہی پر، قوم کے نہ ہونے پر، ظالموں اور بے ضمیروں، دہشت آفرینوں، بدکرداروں اور نالائقوں کی حکمرانی پر، ملک بھر کی بدامنی پر، بدامنی کو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے رجحان پر ۔۔۔ افسوس!

ہم بھی دوسری اقوام کی طرح اپنے پرچم اور اپنے پاسپورٹ پر فخر کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے مالک بنے ہوئے حکمران ہمیں ایسا موقع فراہم نہیں کرتے اور آئے دن کی انسانیت دشمنی نے ہمارے ملک کا چہرہ بگاڑ کر دنیا والوں کے سامنے رکھا ہے اور اگر کچھ ہی دن بعد پاکستان کی سترویں سالگرہ منانے کے لئے ابھی سے جشن و سرور کے انتظامات کی تیاری کرنے والے اقوام کا لویہ جرگہ بلا کر ملت سازی کے لئے قومی گفتگو کی دعوت عام دیں تو شاید آئندہ چند سالوں میں ہم بھی دنیا کو منہ دکھانے کے قابل ہوجائیں اور ہم مل کر دہشت گردی کے ناسور کو - جو ہماری رگ و پے میں رسوخ کر گئی ہے اور آج ہم پر حکمرانی کررہی ہے - کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے ک قابل ہوجائیں گے۔

نوٹ: زیر نظر مضمون مصنف نے اپنے نقطہ نظر سے لکھا ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا نقطہ نظر پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلے، تو قلم اٹھائیں اور اپنے ہی الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، سوشل میڈیا آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ ہمیں ای میل کریں ای میل ایڈریس: tasnimnewsurdu@gmail.com آپ اپنے بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنک بھی بھیج سکتے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری