صیہونیوں کی جانب سے مسجد الاقصی کی ہتک آمیز اقدامات پر ایک نظر


صیہونیوں کی جانب سے مسجد الاقصی کی ہتک آمیز اقدامات پر ایک نظر

صیہونیوں کی جانب سے مسجدالاقصیٰ کیخلاف 1967 سے لیکر 2017 تک ہتک آمیز اقدامات کا مختصر جائزہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 7جنوری 1967 میں صیہونی جرنیلوں نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ مسجد الاقصی پر حملہ کرتے ہوئے قرآن  مجید کے نسخوں کو آگ لگا دی اور گنبد صخرہ پر صیہونی پرچم لہرادیا۔

15جنوری کو صیہونی فوج کے ایک بڑے عالم شلومو گورن نے 50 افراد کے ہمراہ مسجد پر حملہ کیا اور وہاں یہودی عبادت کے مراسم  ادا کئے، اس کے چند دنوں بعد جناب سلیمان کی عبادتگاہ کو تلاش کرنے کے بہانے مسجد کو نیچے سے کھوکھلا کردیا گیا۔

21 اگست 1969 میں ایک صیہونی شدت پسند "ڈینس ڈوہن"  نے مسجد میں داخل ہوکر محراب کو آگ لگا دی۔

25 مارچ 1979 میں صیہونی دینی مدرسوں کے کچھ طلباء نے مسجد پر حملہ کیا جس کا مسلمان جوانوں نے مقابلہ کیا لیکن صیہونی فوجیوں نے انہیں منتشر کر دیا۔

11 نومبر کو صیہونی فوج نے نمازیوں پر فائرنگ کرکے دسیوں افراد کو زخمی کردیا۔        

13جنوری 1981 کو تحریک "امناء کوہ معبد" کے کچھ افراد نے یہودی عالم اور "ہاتحیا" تحریک کے بعض رہنماوں کے ہمراہ مسجد الاقصی پر حملہ کرتے ہوئے صیہونی پرچم لہرا دیا اور مسجد میں یہودی عبادت کے مراسم ادا کئے۔

اگست 1981 میں صیہونی سربراہوں نے مسجد الاقصی کے نیچے ایک سرنگ بنائی جس کو صیہونی وزیر جنگ کی درخواست پر مخفی رکھا گیا جس کے سبب مسجد کے مغربی دیواروں سے متصل عمارتوں میں شگاف پیدا ہوگیا۔

11 اپریل 1982 کو صیہونی فوجی "ہیری گولڈمین" نے مسجد پر حملہ کیا جس میں دو فلسطینی شہید اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔

20 جنوری 1983 کو مسجد الاقصی میں کوہ معبد کی تعمیر کے لئے صیہونی - امریکی شدت پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔

26جنوری 1984 کو دو صیہونی افراد گنبد صخرہ کو منہدم کرنے کے لئے دھماکہ خیز مواد کے ہمراہ قدس کی دیواروں سے اندر داخل ہوگئے لیکن نگہبانوں نے انہیں اپنے ہدف کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا۔

21 اگست 1985 کو صیہونی حکومت نے یہودی شدت پسندوں کو یہ اجازت دی کہ اگر ان میں سے دس افراد مسجد الاقصی میں دینی مراسم انجام دینے کے لئے آمادہ ہیں تو وہ اپنے مراسم انجام دے سکتے ہیں۔

8 اکتوبر 1990 کو غاصب صیہونی حکومت کے فوجیوں نے مسجد الاقصی میں موجود احتجاج کرنے والوں پر حملہ کردیا جس میں 34 افراد شہید اور 115 زخمی ہو گئے تھے۔  

 8 دسمبر 1990 کو صیہونی پولیس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نعرے لگانے کے لئے نسل پرست تحریک کے کچھ اراکین کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

24 ستمبر 1996 کو صیہونی فوج نے مسجد الاقصی کی مغربی دیوار کے نیچے ایک سرنگ کھو دی جس سے پورے فلسطین میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، صیہونی فوج نے مظاہروں کو کچلتے ہوئے 62 افراد کو شہید اور 1600 کو زخمی کردیا۔

27 ستمبر 1999 کو صیہونی شراب فیکٹری نے شراب کی بوتلوں پر قدس شہر کی ایک تصویر دی تھی جس کے درمیان میں مسجد الاقصی کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔

20 اپریل 2000 کو مشرقی قدس کے بیشتر علاقے کو غصب کرنے کے ہدف سے مسجد کے قریب یہودی میوزیم کا افتتاح ہوا جس میں یہودیوں کے دعوے کے مطابق معبد کی تصویر کو نمائش کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

4 مئی کو فلسطینوں کی طرف سے پتھر برسائے جانے کا جھوٹا بہانہ بناکر صیہونی فوجیوں نے زبردستی مسجد میں داخل ہوکر نگہبانوں کے کمرے پر حملہ کردیا، جس کے بعد صیہونی حکومت کے سفاک وزیر اعظم نے کابینہ میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ایک قانون بنایا جس کے تحت یہودی اور غیر ملکی سیاح بغیر اجازت کے مسجد میں داخل ہوسکتے تھے۔

23 اکتوبر کو ایک یہودی شدت پسند نے صیہونی پولیس کو دھمکی بھرا خط لکھ کر کہا کہ وہ مسجد الاقصی پر بم اور دھماکہ خیز مواد سے بھرے طیارے کو گرانا چاہتا ہے۔   

16 جون 2001 کو پوری دنیا گواہ ہے کہ صیہونی فوجیوں نے مسجد الاقصی میں شراب نوشی کی۔

7جولائی: صیہونی حکام نے مسجد کی مرمت کے ساز و سامان کو اندر لے جانے سے روکا، اسی دوران انتہا پسند صیہونی گروہ نے مسجد الاقصی کو بم سے اڑانے کی دھمکی بھی دی۔

جولائی کے آخر میں صیہونی حکام نے مسجد کے نیچے موجود دو سرنگوں کا پردہ فاش کیا۔

اکتوبر 2002 کو اسرائیلی فوج کے کچھ جوانوں نے زبردستی مسجد میں داخل ہوکر نمازیوں کو پیٹا اور ان سے بدتمیزی کی۔

31 جنوری 2003 کو بالرکن حرکوش نامی کمپنی نے ایک دیواری پوسٹر شائع کیا جس پر یوکرائن میں بنے شراب کے جام پر مسجد الاقصی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔

3 مارچ کو 3 ہزار صیہونی شہریوں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی، اسرائیلی پولیس کے حکم پر اسلامی میراث کے دفتر کو معطل کردیا گیا۔ یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں مسجد الاقصی یہودی عبادتخانے میں تبدیل نہ ہوجائے۔

اسی سال اگست میں صیہونی عالم الیعازر کے بیٹے افرایم شاخف نے یہودیوں سے مسجد کی طرف جانے کی درخواست کی اور مسلمانوں اور عربوں کو پلید بتاتے ہوئے اس مقدس مقام کو ان کے وجود سے پاک کرنے کی اپیل کی جس کی بنا پر 24 اگست کو شدت پسند یہودیوں نے مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی، اسی دن صیہونی پولیس نے فلسطینی محکمہ اوقاف کے عہدے داروں اور نمازیوں  پر حملہ کرکے شیخ محمد حسین اور مسجد کے خطیب کو زخمی کردیا۔

یکم ستمبر کو اسرائیلی پولیس نے خواتین سیاحوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دی جن کا لباس کسی بھی زاویہ سے مسجد میں داخل ہونے کے لئے موزوں نہیں تھا۔

اکتوبر 2004 کو قدس پولیس کے کمانڈر ایلان فرانکو اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے کچھ افراد مروانی مصلی میں داخل  ہوگئے، اگلے ہی دن کچھ شدت پسند افراد نے اشتعال انگیز ریلی نکالی جس میں مسجد کے کچھ ایسے فوٹوز اٹھائے ہوئے تھے جن پر "ضربدر" کی علامت بنی ہوئی تھی جو مسجد الاقصی کی جگہ پر یہودی عبادتخانہ تعمیر کرنے کا عندیہ تھا۔

28 دسمبر کو ایک صیہونی شہری نے نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہوکر مسجد کے شیشوں کو توڑ دیا۔

2005 سے 2013 تک کئی بار مسجد کی ہتک حرمت کی گئی جس میں براق دیوار کے جنوب میں یہودی عبادتخانے کا افتتاح سب سے بڑی بے حرمتی ہے۔

14 اگست 2005 کو غاصب صیہونیوں نے سلیمان قانونی روڈ کے ساتھ ساتھ قدیم قدس تک پہنچنے والے تمام راستوں کو بند کر دیا، صیہونی شوٹر چھتوں پر تعینات کر دئے گئے اور جگہ جگہ ہیلی کاپٹر اڑان بھرنے لگے۔

 2012 میں پانچ افراد پر مشتمل ایک اسرائیلی فوجی گروہ نگہبانوں کے ساتھ جنگی لباس میں مسجد میں داخل ہوگئے۔

30 اکتوبر 2014 کو مسجد الاقصی کو 24 گھنٹوں کے لئے بند کر دیا گیا، جس پر فلسطینی جوانوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔

14 جولائی 2017 کو صیہونی فوج کے ہاتھوں مسجد الاقصی کے صحن میں تین فلسطینی جوان شہید ہوئے جبکہ اس جھڑپ میں دو صیہونی بھی ہلاک ہوئے۔

جمعہ کی صبح رونما ہونے والے اس حادثے کے بعد صیہونیوں نے ظالمانہ اقدام کرتے ہوئے مسجد الاقصی کے دروازوں کو ایک دن کے لئے بند کر دیا تھا اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگا دی تھی،  جس کی مثال فلسطین کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری