اتحاد بین المسلمین کے داعی اور پاکستانی شیعوں کے شہید قائد کا مختصر زندگینامہ


اتحاد بین المسلمین کے داعی اور پاکستانی شیعوں کے شہید قائد کا مختصر زندگینامہ

پاکستان بھر میں ملت جعفریہ اپنے محبوب قائد، فرزند خمینی بت شکن (ره) شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کی 29یں برسی انتہائی عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و خروش سے منارہی ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: 10 فروری 1984ء کو علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد علامہ عارف حسین الحسین کو بعنوان  قائد ملت جعفریہ پاکستان منتخب کر لیا گیا اورانہوں نے اپنی جان و مال ملت جعفریہ کے مسلمہ حقوق کے دفاع کے لئے مختص کردی۔

شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے  پاکستان میں شیعوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اتحاد بین المسلمین کے لئے نہایت اہم کردار ادا کیا جس کا اعتراف شیعہ سنی دونوں کررہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ قائد محبوب نے اپنے دور قیادت میں پاکستانی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف فرقوں کے ماننے والے ایک دوسرے کے بہت قریب آئے۔

ہم اپنے قارئین کی خدمت میں شہید عارف حسین الحسینی کی مختصر زندگی نامہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔

 علامہ شہید عارف الحسینی پاراچنار شہر سے مختصر فاصلے پر واقع پیواڑ نامی گاؤں میں ایک انتہائی نجیب و شریف خاندان کے گھر ٢٥ نومبر ١٩٤٦ء کوآنکھ کھولی تھی۔

سید عارف حسین الحسینی کوپانچ برس  کی عمر میں پیواڑ کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا اور ساتھ ہی گھر میں قرآن مجید کے ابتدائی درس کا اہتمام بھی کیا گیا۔

آپ چوتھی جماعت تک پیواڑ کے پرائمری سکول میں زیر تعلیم رہے اور بعد ازاں مزید تعلیم حاصل کرنے پاراچنار کے ہائی سکول میں داخلہ لیا اور میڑک یہیں سے پاس کیا۔

١٩٦٢ء میں آپ  دسویں جماعت کامیابی کے ساتھ پاس کیا،آپ کے والدین کا خیال تھا کہ آپ کو کالج میں داخل کروایا جائے، لیکن آپ اپنی طبیعت میں روحانیت کی بنا ء پر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا پاراچنار میں موجود مدرسہ جعفریہ میں داخلہ لیا اور یوں اپنی دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا۔

آپ نہایت با تقویٰ  اور پرہیز گار انسان تھے جس کی وجہ سے مدرسہ کے تمام اساتذہ بے حد متاثر تھے، آپ کی ریاضت، اخلاق اور حصول علم کے شوق کا ادراک کرتے ہوئے آپ کے دور اندیش اساتذہ نے فرمایا تھا کہ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ کرّم ایجنسی میں سید عارف حسین الحسینی سے بڑا عالم دین کوئی نہیں ہوگا اور ایک روز یہ شخص کرم ایجنسی کی تقدیر بدل ڈالے گا۔ اساتذہ کرام کی یہ پشین گوئی سچ ثابت ہوئی علامہ نے نہ صرف کرم ایجنسی بلکہ پورے پاکستان کے شیعوں میں ایک نئی روح پھونکی اور ملت جعفریہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بیدار کردیا۔

مدرسہ جعفریہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے نجف اشرف روانہ ہوئے اور وہاں اس وقت کے مشہور معروف اساتید خاص کر امام خمینی سے کسب فیض کیا اور امام خمینی کے مدبرانہ افکار سے سخت متاثر ہوئے۔

اور قائد محترم ہمیشہ نجف اشرف میں موجود تمام طلاب سے یہی کہا کرتے تھے کہ دعا کرو کہ فرزند زہراء خمینی دشمنوں کی نظر بد سے محفوظ رہیں اور کوشش کرو کہ آپ کے افکار کاچرچا عام ہو۔

یاد رکھو کہ اگر خدا نخواستہ اس رہبر کو کچھ ہوگیا تو پھر کئی برس تک کوئی عالم دین صدائے حق بلند نہیں کرسکے گا اور اگر بفضل خدا انہیں کامیابی حاصل ہو گئی تو پھر اسلام سرخرو اور علماء سربلند ہوں گے۔

آپ کے جذبات اور خلوص سے  ہند و پاک کے تمام طلباء بے حد متاثر ہوئے اور امام خمینی کی اقتداء میں نماز مغرب و عشا شرکت کرنے لگے۔

عراقی بعث پارٹی کی حکومت نے آپ کو ایت اللہ حکیم کی حمایت کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کردیا گیا۔

لہذا جب آپ ١٩٧٣ء میںنجف اشرف سے پاکستان بغرض ترویج انقلاب آنے لگے تو امام خمینی نے آپ کو اپنا وکالت نامہ دیا جو ایران کی سرحد پر دوران تلاشی چھین لیا گیا۔

علامہ عارف حسین الحسینی نے اپنے دینی تعلیم کو مکمل کرنے کی غرض سے ایک بار پھر پاکستان سے ایران کے شہر قم المقدسہ ہجرت کی اور وہاں کے معروف اساتید سے کسب فیض کیا۔

قم میں دینی علوم حاصل کرنے کے بعد وہ جب پاکستان تشریف لائے اور پاکستانی قوم کی خدمت کےلئے اپنی زندگی وقف کردی۔

شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں میں خود  نہیں کرتے ہم ترقی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے ایک جگہ فرمایا کہ "تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور ملک میں نظام اسلام کے قیام کیلئے اکٹھے ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔

ولایت علوی کا یہ چمکتا ہوا ستارہ، صرف ساڑھے چار سال تک افق سرزمین پاکستان پر بہ طور قائد چمکا اور ایک عالمی سازش کے تحت 5 اگست 1988ء کی دم فجر جامعہ معارف الاسلامیہ پشاور میں ہم سب کو داغ جدائی دے کر اپنے ابدی مقام کی طرف پرواز کر گیا۔

حضرت امام خمینی نے فخر ملت جعفریہ کی شہادت پر ایک اعلیٰ وفد آیۃ اللہ جنتی کی قیادت میں پاکستان بھیجا جنہوں نے ان کا جنازہ پڑھایا۔

خمینی بت شکن نے تاریخی تعزیتی پیغام کے ذریعے فرمایا: میں آج اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں اور ملت پاکستان  کو تاکید کی کہ وہ علامہ عارف حسین الحسینی کے افکار کو زندہ رکھیں۔

ترتیب و پیشکش: غلام مرتضی جعفری

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری