خمینی بت شکن کے روایت شکن بیٹے، شہید عارف حسینی کی مظلومانہ شہادت


خمینی بت شکن کے روایت شکن بیٹے، شہید عارف حسینی کی مظلومانہ شہادت

دیوار پر آویزاں کلاک کی ٹک ٹک قلب و ذہن میں ایک عجیب قسم کا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ گھڑی پر نگاہ پڑی تو بارہ بجنے میں چند سیکنڈ باقی تھے، چند سیکنڈ کے بعد نئے دن کا آغاز ہونا تھا۔ چار اگست کا دن اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا اور پانچ اگست کا دن شروع ہونے کو تھا۔ پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست ۔۔۔۔۔۔۔۔ پانچ اگست۔ یہ لفظ قلب و ذہن کی دیواروں سے ٹکرانے لگا۔ آج سے 29 سال پہلے کی 5 اگست 1988ء کی صبح نے ایک بار پھر مجھے تڑپا کے رکھ دیا۔ میں اسلام آباد کے دینی مدرسہ جامعہ اہلبیت میں آئی ایس او کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے موجود تھا۔ نماز فجر کے بعد احکام کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا، لیکن طبیعت انتہائی اچاٹ اور دل انتہائی اداس تھا۔ مدرسہ پر بھی ایک ہو کا عالم طاری تھا۔ کمرے سے باہر نکل کر مدرسہ کے در و دیوار پر نگاہ دوڑائی ہر طرف مایوسی اور ویرانی کا دور دورہ تھا۔ دل میں ایک عجیب طرح کی بے تابی تھی لیکن وجہ نہ معلوم۔ اسی اثناء میں فون کی گھنٹی بجی۔ سجاد میکن بول رہے تھے، انہوں نے ایک جملہ کہا اور جب ٹیلی فون سننے والے نے اسے دہرایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے مدرسہ کے در و دیوار گھوم رہے ہیں۔ زمین اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ کیا۔۔۔۔۔۔؟ دوبارہ کہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

جی ہاں، قائد کو پشاور میں شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ جملہ تھا جس کی بازگشت کو میں آج بھی اپنے کانوں کے پردوں پر محسوس کرتا ہوں۔ آج اٹھائیس سال کے بعد بھی یہ جملہ مجھے رنجیدہ کر دیتا ہے۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کاش یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ ساعتیں رک جاتیں۔ زمانہ ٹھہر جائے، میرا خواب ختم ہوجائے اور میں جب آنکھیں کھولوں تو میرے ساتھی کہیں مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد قائد سے ملاقات کے لئے پشاور جانا ہے اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں۔ کاش یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ کاش ٹیلی فون پر دیا گیا یہ پیغام کسی اور موضوع پر ہوتا۔ کاش قائد ہم سے جدا نہ ہوتے۔ کاش علم و عمل کا یہ کارواں قائد کی قیادت میں آگئے ہی بڑھتا رہتا اور ہم سب با آواز بلند یہ کہتے آگے بڑھتے رہتے۔

بڑھتے رہیں یونہی قدم، حئی علی خیر العمل

عارف سا قائد ہوا ہے نصیب نصر من اللہ فتح قریب

اب تو زندگی میں اتنے "کاش" ہوگئے ہیں کہ گویا اس کے علاوہ کچھ باقی ہی نہیں رہا۔ میں یہ الفاظ قلمبند کر رہا ہوں اور سوئی کی ٹک ٹک کی آواز مسلسل آرہی ہے۔ پانچ اگست کا دن شروع ہوچکا ہے۔ یہ پانچ اگست بھی گذشتہ اٹھائیس سالوں کی طرح چپکے سے گزر جائیگا۔ کہیں برسی مناکر شہید کو خراج عقیدت پیش کیا جائیگا، کہیں سیمینار منعقد کرکے شہید کے افکار کو بیان کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ مجالس تراحیم برپا ہونگی۔ شہید کے غمزدہ ساتھی اپنے اپنے انداز میں شہید کے ساتھ گزرے ایام و واقعات کو دہرائیں گے۔ شہید کے افکار کو زندہ رکھنے کے وعدے کئے جائیں گے۔ تجدید عہد کیا جائیگا اور پھر اگلی پانچ اگست تک سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوجائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید عارف الحسینی ہماری ملی اور اجتماعی زندگی میں ہمارے ہمراہ رہتے ہیں۔ قومی ترقی، نوجوانوں کی تربیت، تقویٰ و شہادت اور عوام کے لئے انتھک جدوجہد قصہ مختصر قومیات کا کوئی حوالہ شہید حسینی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، لیکن پانچ اگست کا پیغام کیا ہے ابھی اس پر کام ہونا باقی ہے۔

اس سال کی پانچ اگست کو میرا دل چاہ رہا ہے کہ اپنے شہید قائد کو ایک خط لکھوں۔ دل کی باتیں ان تک پہنچاؤں۔ درد دل بیان کروں۔ دکھڑے سناؤں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ گذشتہ اٹھائیس سال کے تمام شکوے شکایات ان کے سامنے کھول کر بیان کروں، لیکن کیا کروں ماحول ایسا بن گیا ہے کہ اگر شہید کی تعریف کرتے ہیں تو کچھ حضرات اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور اس کے بعد ان حضرات کے چیلے چانٹے گالیوں، اعتراضات اور تہمتوں کا خنجر لیکر شہید کی تعریف کرنے والوں کا تیہ پانچہ کرنے کے لئے سوشل نیٹ ورک پر دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ایران میں امام خمینی کی تعریف پر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے چاہنے والے کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، لیکن میں نے جب بھی شہید مظلوم کی زمان و مکان کی روشنی میں اوصاف بیان کئے تو لوگ ان صفات کو کسی اور میں تلاش کرنے لگتے ہیں اور جب اس تلاش میں ناکام ہوتے ہیں تو شہید کی تعریف کرنے والوں پر برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بعض اہل دل کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں شہید حسینی جیسی شخصیت پر تحریری اور تحقیقی کام نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انکے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنا مشکل ہے، اس غفلت میں کون کون سے افراد اور ادارے ذمہ دار ہیں، اس کی فہرست طویل ہے۔

بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائیگی

خدا بھلا کرے تسلیم رضا خان اور شبیر بخاری صاحب کا جنہوں نے ذاتی کوششوں سے شہید کے افکار و آثار کو چند کتابوں کی شکل میں اکٹھا کر دیا ہے۔ اے میرے قائد اس خط کا آغاز کہاں سے کروں۔ ان حسین لمحات اور ناقابل فراموش واقعات کی یاد آوری سے جب آپ تمام تر مخالفتوں، مشکلات، اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں کے ملت تشیع کی ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارے تک لے جانے میں مصروف تھے۔ اتنی مشقتوں، زحمتوں اور جفاکشیوں کے باوجود آپ کا مطمئن اور پرسکون چہرہ آج بھی قلب و نظر میں اضطراب پیدا کر دیتا ہے۔ آپ نے زبان اور قلم کے کتنے زخم برداشت کئے لیکن حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ میری نظروں میں لاہور کے ایک دینی مدرسے میں علماء کا ایک اجلاس آج بھی ایک فلم کی طرح چل رہا ہے، جب آپ پر بے جا اعتراضات کی ایسی بوچھاڑ کی گئی کہ آپ نے تنگ آکر قیادت سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ شہید مظلوم جو آپ کی زندگی میں آپ کے اتنے مخالف تھے وہ اب کیا کر رہے ہیں، اس کا حال آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں لیکن آپ سے محبت کرنے والوں کو آج بھی اسی رویے کا سامنا ہے۔ شہید قائد آپ نے جن اداروں اور تنظیموں کو اپنے مقدس لہو سے سینچا تھا، وہ یا تو پہلے سے زیادہ سکڑ گئے اور کہیں وسعت بھی آئی تو نظریاتی کھوکھلاپن نمایاں اور آشکار ہے۔

اے میرے عزیز قائد۔ میں اس طرح کی باتیں کرکے آپ کو پریشان اور مایوس نہیں کرنا چاہتا، لیکن کیا کروں آپ نے پاکستان میں شیعہ قوم کو ایک انقلابی قوم اور شیعہ تنظیموں کو تنظیم کی بجائے ظلم و سامراج کے خلاف برسر پیکار تحریک میں بدلنے کی کوشش کی، لیکن آج ۔۔۔ اے میرے محبوب قائد آج جب بھی قوم و ملت پر دشمن کا کوئی حملہ ہوتا ہے یا کوئی قومی و ملی اجتماع ہوتا ہے تو آپ کے تربیت یافتہ اور نظریاتی پیروکار کھوئی کھوئی نظروں سے خلاؤں میں کسی چیز کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔

اے خمینی بت شکن کے روایت شکن بیٹے

تیرے بعد قومی تنظیموں اور ملی اداروں کو ذاتی جاگیر اور گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے۔

قومی مطالبات کے حصول کی بجائے لیڈری اور سربراہی تک پہنچنا ترجیحی ہدف ہوگیا ہے۔

لاشوں اور جنازوں کی سیاست نے ہر باشعور شیعہ کو دلبرداشتہ کر دیا ہے۔

مروجہ سیاستدانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو فضیلت سمجھا جا رہا ہے۔

کارکن اور سربراہ کے درمیان تقدس کے نام پر خلیج میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، دینی تربیت اور معنویت و روحانیت کا حصول نچلے طبقے کے کارکنوں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے اور عہدیداران اور مرکزی قائدین اپنے آپ کو اس سے مبرا سمجھتے ہیں۔

اے میرے محبوب قائد میں اس طرح کی باتوں سے آپ کے دل کو ملول نہیں کرنا چاہتا، لیکن کنویں میں منہ ڈال کر گریہ کرنے کی ہمت اور حوصلہ بھی تو نہیں ہے۔ البتہ ایک اہم بات جس سے زندہ رہنے کا حوصلہ ملتا ہے، وہ نوجوان نسل میں آپ سے اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے والہانہ محبت ہے۔ اس نسل نے نہ آپ کو بلاواسطہ دیکھا ہے اور نہ شہید ڈاکٹر محمد علی تقوی کو درک کیا ہے، لیکن ان نوجوانوں کے دلوں میں موجزن آپ حضرات سے عشق و محبت امید کی شمع روشن کئے ہوئے ہے، آپ کی تربیت یافتہ نسل جو اب سفید ریش اور ادھیڑ عمر کے افراد پر مشتمل ہے، کے جانے کے بعد بھی آپ کے افکار و نظریات کو آگے بڑھانے والے موجود ہیں، جو کام پہلی والی نسل انجام نہیں دے سکی، نئی نوجوان نسل اس کے لئے پرعزم نظر آرہی ہے۔ آخر میں ایک شہید کی ماں کا واقعہ نقل کرکے آپ سے التماس دعا۔

ایک شہید کی والدہ ہر جمعہ کو اپنے نوجوان بیٹے کی قبر پر جاتی تھی، ایک بار اس کا شہید بیٹا اسکے خواب میں آکر اس سے کہتا ہے، اماں جان آپ جمعہ کے دن میری قبر پر تشریف نہ لایا کریں، ہر جمعہ کو شہداء کو امام حسین علیہ اسلام کی خدمت میں لے جایا جاتا ہے، لیکن میں اس لئے محروم رہتا ہوں کیونکہ مجھے کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے مہمان آنے والے ہیں۔ اے میرے محبوب قائد آپ کو جب میرے مولا امام حسین علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو تو ہمارا بھی سلام پہنچا دیجئے گا۔

بچھڑنے والے

چلے جو ہو تو بتا کے جاؤ

کہ کتنی شامیں اداس آنکھوں میں کاٹنی ہیں

کہ کتنی صبحیں اکیلے پن میں گزارنی ہیں

کتنے سورج عذاب رستوں کو دیکھنا ہے

کتنے مہتاب سرد راتوں کی وسعتوں سے نکالنے ہیں

بتا کے جاؤ

کہ چاند راتوں میں وقت کیسے گزارنا ہے

خاموش لمحوں میں تجھ کو کتنا پکارنا ہے

کتنے لحمے شمار کرنے ہیں ہجرتوں کے

کتنے موسم ایک ایک کرکے جدائیوں میں گزارنے ہیں

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری