امریکا نے پاکستان پر پابندیوں کا عندیہ دیتے ہوئے نئی افغان پالیسی کا اعلان کردیا


امریکا نے پاکستان پر پابندیوں کا عندیہ دیتے ہوئے نئی افغان پالیسی کا اعلان کردیا

امریکی سینیٹر نے اس بیان کیساتھ کہ اگر پاکستان طالبان کی مبینہ مدد اور افغانستان میں انتشار پھیلانے والے گروہوں کو پناہ گاہیں فراہم کرتا رہا تو اسے سفارتی، فوجی اور معاشی پابندیوں کاسامنا کرنا پڑیگا، افغانستان کے بارے میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کردیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امریکی سینیٹر کی جانب سے پیش حکمت عملی میں افغانستان سمیت خطے میں موجود دیگر ریاستوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دی گئی جن میں پاکستان، چین، بھارت، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان شامل ہیں، نئی افغان حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سینیٹر نے سابق صدر باراک اوباما اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، ان کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی نے امریکا کواپنے اہداف سے پیچھے دھکیل دیا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کے گزشتہ7  ماہ کے دوران امریکا کو کوئی حکمت عملی ہی حاصل نہیں ہوسکی جس کے باعث حالات کشیدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ایکسپریس نیوز نے جان میک کین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس حکمت عملی کا مقصد یہ اطمینان کرنا ہے کہ آئندہ کبھی بھی افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بن سکے جہاں سے دہشت گرد امریکا، اس کے اتحادیوں یا پھر اس کے مفادات کے خلاف کارروائی کر سکیں۔

گزشتہ ماہ امریکی محکمہ دفاع نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں افغانستان کی سیکیورٹی اور استحکام کا جائزہ لیا گیا تھا جبکہ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا تھا کہ پاکستان، افغانستان کی صورتحال پر اثر انداز ہونے والا سب سے بااثر بیرونی عنصر ہے جس سے افغانستان کا امن متاثر ہوتا ہے اور نیٹو افواج اپنے اہداف مکمل نہیں کر پاتے۔

افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں پاکستان پر نئی پابندیوں کے خطرات کے علاوہ پاک، امریکا طویل المدت شراکت داری کے فوائد کو بھی نمایاں کیا گیا، جو تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب پاکستان طالبان کو مبینہ مدد فراہم کرنا بند کرے اور افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے اپنا تعمیری کردار ادا کرے، نئی حکمت عملی میں آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ترامیم شامل ہیں جس کے مطابق مزید امریکی فوجی اہلکاروںکوانسداد دہشت گردی کے مشن کے لیے تعینات کیا جائے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری