دیوبند علماء کا پاک فوج پر سوالیہ نشان، سانحہ راجہ بازار کی اصل حقیقت کیا ہے؟


دیوبند علماء کا پاک فوج پر سوالیہ نشان، سانحہ راجہ بازار کی اصل حقیقت کیا ہے؟

تین سال پہلے ہی سپاہ صحابہ کے 9 پیش اماموں کے جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہونے سے ثابت ہوا تھا کہ یہ کسی سازش کا حصہ ہیں، یوں خفیہ اداروں نے اس پر مزید تحقیقات کیں تو اصل محرکات کھل کر سامنے آگئے، جن کا ذکر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہ آگ لگانے اور قتل و غارت گری کی لرزہ خیز واردات میں خود اسی مسجد کے مسلک کے لوگ ملوث تھے۔

خبر رساں ادارے تسنیم نے اسلام ٹائمز کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اسی ایف آئی آر میں کالعدم اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ) سے تعلق رکھنے والے 9 پیش اماموں کے نام بھی درج تھے، جن پر الزام تھا کہ یہ اپنی اپنی مساجد چھوڑ کر جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہوئے تھے۔ ان 9 پیش اماموں سے فقط شکریال مسجد کے پیش امام تنویر عالم فاروقی کو گرفتار کیا گیا، جو کالعدم اہل سنت والجماعت راولپنڈی کا صدر بھی تھا، تاہم بعد میں اسے بھی رہا کر دیا گیا۔
 
رپورٹ: عبدالرحمان
 
جامعہ تعلیم القرآن کے مہتمم مولانا اشرف علی، ڈاکٹر عتیق، قاضی حفیظ الرحمان ایڈووکیٹ اور مفتی عبدالرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کو مسترد کر دیا ہے۔ بین السطور پاک فوج پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے ان رہنماوں نے کہا ہے کہ اب چار سال بعد یہ بیان داغ دینا واقعہ کے رخ کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ رہنماوں نے کہا کہ انہوں نے کب کہا کہ ان کا قاتل شیعہ ہے، ہم کہتے ہیں جو قاتل ہے اسے سزا دی جائے۔ رہنماوں نے مطالبہ کیا کہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے انہیں اعتماد میں لیکر تمام ثبوت دکھائیں، جن کی بنیاد پر پریس کانفرنس کی گئی۔ اگر ہمیں قائل کر لیا گیا تو ہمارے تحفظات دور ہو جائیں گے۔

سانحہ راجا بازار کی اصل حقیقت:
 
2013ء میں راولپنڈی راجہ بازار میں پیش آنے والے سانحہ کے بعد کل 110 شیعہ افراد کو گرفتار کیا تھا، یہ گرفتاریاں جلوس کی ویڈیو دیکھ کر شناخت پریڈ کرکے کی گئی تھیں، بعد میں عدالت نے ان تمام 110 افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ خیال رہے کہ گرفتار افراد میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا، جس کا کوئی کریمنیل ریکارڈ موجود ہو، گرفتار افراد میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بینک ملازم تھے، سرکاری ملازم تھے یا پھر طالب علم تھے، اسی ایف آئی آر میں کالعدم اہل سنت والجماعت (سپاہ صحابہ) سے تعلق رکھنے والے 9 پیش اماموں کے نام بھی درج تھے، جن پر الزام تھا کہ یہ اپنی اپنی مساجد چھوڑ کر جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہوئے تھے۔ ان 9 پیش اماموں سے فقط شکریال مسجد کے پیش امام تنویر عالم فاروقی کو گرفتار کیا گیا، جو کالعدم اہل سنت والجماعت راولپنڈی کا صدر بھی تھا، تاہم بعد میں اسے بھی رہا کر دیا گیا۔

تین سال پہلے ہی حساس اداروں کی طرف سے کہہ دیا گیا تھا کہ سپاہ صحابہ کے 9 پیش اماموں کے جامعہ تعلیم القرآن میں جمع ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی سازش کا حصہ ہیں، یوں آئی ایس آئی نے اس پر مزید تحقیقات کیں تو اصل محرکات کھل کر سامنے آگئے، جن کا ذکر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم القرآن میں آگ لگانے اور قتل و غارت گری کی لرزہ خیز واردات میں خود اسی مسجد کے مسلک کے لوگ ملوث تھے، انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں گرفتار دو ملزمان کے اعترافی ویڈیو بیانات بھی چلائے۔ دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے دباو پر اس ایف آئی آر میں تمام بانیان مجالس اور لائسنس ہولڈر کو نامزد کیا گیا تھا، حتٰی کئی دہائیاں پہلے وفات پا جانے والے لائسنس ہولڈر شاہ چن چراغ جن کا راولپنڈی میں مزار بھی بنا ہوا ہے، اس مرحوم کو بھی اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا۔
 
سید حفاظت علی شاہ کے پوتوں تک کو اس ایف آئی آئی آر میں نامزد کیا گیا، جو سراسر ناانصافی اور تعصب کی بنیاد پر اقدام تھا۔ ان اقدامات کا مقصد عزاداری سیدالشہداء کو محدود کرنا اور مرکزی جلوس کے روٹ کو ختم کرنے سمیت ملک گیر شیعہ سنی فسادات کراوانا تھا، جو بھارت اور افغان دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کی دلی خواہش تھی۔ تاہم مکتب تشیع نے ایک مرتبہ پھر اپنی حب الوطنی کو ثابت کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
 
یاد رہے کہ کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے کارندوں نے راولپنڈی کی پانچ امام بارگاہیں جلائی تھیں اور قرآن مجید کے نسخے تک نذر آتش کر دیئے تھے۔ امام بارگاہوں کے نذر آتش کئے جانے کے دوران ایک بزرگ اہل سنت بھی شہید ہوگئے تھے۔
اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری