قطر بحران؛ کیا سعودی عرب اپنے اہداف تک پہنچ پایا؟


قطر بحران؛ کیا سعودی عرب اپنے اہداف تک پہنچ پایا؟

قطر بحران اور سعودی عرب سمیت اس کے تین اتحادی ممالک کی جانب سے دوحہ پر اقتصادی پابندیوں کے تین ماہ گزرنے والے ہیں لیکن قطر کی جانب سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے متعلق کسی قسم کی لچک دیکھنے میں نہیں آرہی۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے قطر پر دہشتگردی کی حمایت، خطے کو غیر مستحکم بنانے اور ان ممالک کے اندرونی امور میں مداخلت کا الزام  لگاتے ہوئے دوحہ کیساتھ اقتصادی روابط منقطع کئے؛ ایسے الزامات جنہیں قطر بے بنیاد اور محض ایک دعویٰ قرار دے رہا ہے۔

ان چار ممالک نے ابتداء میں قطر پر دباو ڈالنے کی غرض سے عالمی میڈیا میں وسیع پیمانے پر کام کیا تاکہ دوحہ ان کے مطالبات پر سرخم تسلیم کرے جبکہ قطری حکومت کے رابطہ عامہ کے سربراہ "سیف بن احمد آل ثانی" کے مطابق سعودی اتحادیوں نے اس ضمن میں ملینز ڈالر خرچ کئے لیکن ان کے ان اقدامات کا تاحال کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

بعد ازاں سعودی عرب اور اس کے ہمنوا تین عرب ممالک نے قطر کیلئے 13 شرائط وضع کئے اور ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر ان شرائط کو ماننے سے انکار کرے تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے برعکس قطر نے سعودی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری دباو کو کم کرنے کیلئے فعال ڈپلومیسی اپناتے ہوئے ترکی اور ایران کیساتھ روابط بڑھائے۔ اس سلسلے میں دوحہ کی جانب سے تہران میں نئے سفیر کی تقرری ایک اہم اور نیا اقدام دیکھنے میں آیا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل میں آل سعود امریکی جال میں پھنس گئے ہیں۔ سعودی عرب کو امید تھی کہ واشنگٹن قطر کو دباو میں رکھنے کیلئے ریاض کو تنہا نہیں چھوڑے گا لیکن بعد میں آنے والے سیاسی محرکات نے سعودی عرب کو اپنے کئے پر پشیماں کردیا۔

امریکہ نے سعودیوں کیساتھ خطیر رقم کی دفاعی قرارداد پر دستخط کئے لیکن دوسری جانب سے ایسی ہی پیشرفت قطری حکام کیساتھ ملاقاتوں میں بھی دیکھنے میں آئی۔ امریکہ نے دوحہ کیساتھ ملکر دہشتگردوں کو مالی معاونت روکنے سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے اور ساتھ ہی سعودیوں کو خوش کرنے کیلئے اعلان کیا کہ قطری حکام اس قرارداد پر عمل درآمد کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔    

تاہم اس بحران کے تقریبا تین ماہ گزرنے کے باوجود، سعودی عرب ایک چھوٹے سے عرب ملک سے اپنے مطالبات منوانے میں ناکام رہا بالکل اسی طرح جس طرح یمن جنگ میں آل سعود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

سعودی عرب یمن جنگ میں اپنے پہلے سے طے شدہ اہداف تک پہنچنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے اور عالمی برادری سعودی اتحادی افواج کے اس ملک سے انخلاء کے گن گا رہے ہیں۔

"شکست کے بعد شکست" وہ اصطلاح ہے جو خطے میں آل سعود کی ناکامیوں کیساتھ جڑ گئی ہے، سعودیوں کی بلند پروازی اس ملک کے حکام کی ناکام پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اور خطے میں ان کا حتیٰ ایک منصوبہ بھی کامیاب نہیں ہوا ہے جبکہ اقتصادی مشکلات بالخصوص اندرونی خلفشار بشمول شیعہ نشین علاقوں میں عوام کی جانب سے شدید اعتراضات قطر اور یمن بحرانوں کے علاوہ ہیں جو آل سعود کے گلے میں کانٹے کی مانند چبھ رہے ہیں۔

خلاصہ کلام، کہا جاسکتا ہے کہ سعودی پالیسیوں نے قطری عوام کیلئے اگرچہ بعض اقتصادی مشکلات کھڑے کردئے ہیں لیکن عملی طور پر آل سعود کا ایجنڈا ناکام ہوگیا ہے کیونکہ وہ قطر کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کرسکے ہیں۔

اس کے علاوہ قطر بحران سعودی عرب کی "عرب ممالک پر حکمرانی" کو کھونے کا باعث بھی بنا ہے اور اس کی حیثیت عرب ممالک سمیت دنیائے اسلام میں متزلزل ہوئی ہے جیسا کہ عمان اور کویت کوشش کر رہے ہیں کہ خطے میں ایک مستقل پالیسی پر گامزن ہوجائیں یا کم سے کم سعودی پالیسیوں کے نتائج سے اپنے آپ کو دور اور محفوظ رکھیں۔

سب سے اہم یہ کہ سعودی عرب قطر کے حوالے سے ہماہنگ شدہ، جامع اور مربوط حکمت عملی پالیسی سے محروم ہے اور دوحہ کیخلاف میڈیا اور اقتصادی دباو ڈالنے میں شکست کھا گیا ہے کیونکہ قطر کیخلاف پابندیوں کا کوئی خاص اثر سامنے نہیں آیا ہے اور آل سعود کی کوششیں کہ قطر کو ایران سے دور کرے – "جیساکہ سعودی شرائط میں سے ایک شرط یہی تھی کہ دوحہ اور تہران کے درمیان روابط کو کم ترین سطح پر لایا جائے" - کا نتیجہ بھی مکمل طور پر سعودیوں کی امیدوں کے برخلاف نکلا ہے اور ایران اور قطر کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری