کراچی میں برمی مسلمان بے بسی کی تصویر، پیاروں کے لئے امداد کے منتظر/ تصویری رپورٹ


کراچی میں برمی مسلمان بے بسی کی تصویر، پیاروں کے لئے امداد کے منتظر/ تصویری رپورٹ

کراچی کے روہنگیا مسلمانوں کا سوال ہے کہ سعودی عرب کا بیالیس ملکوں کا اسلامی اتحاد کہاں ہے، اقوام متحدہ اور او آئی سی کیا کررہی ہیں؟

خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے صفدر عباس نے رپورٹ دی ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی، برما میں مسلمانوں کے قتل عام نے جہاں ہر انسان کا دل ہلا دیا ہے، وہیں کراچی کے علاقے ارکان آباد میں مقیم ہزاروں روہنگیا مسلمان اپنے پیاروں کی یاد میں دل گرفتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "رونگیا مسلمانوں کو برما میں مارا جا رہا ہے اور یہ یہاں اپنے پیاروں کی یاد میں جیتے جی مر رہے ہیں۔"

کراچی کے علاقے کورنگی ٹاون میں ارکان آباد کو روہنگیا مسلمانوں نے اپنا مستقل مسکن بنا رکھا ہے، یہاں دو چار نہیں، بلکہ برمی مسلمانوں کے سیکڑوں کچے پکے مکانات ہیں، جہاں یہ اور ان کی نسلیں کئی برسوں سے آباد ہیں، سمندر قریب ہونے کی وجہ سے ماہی گیری، گھروں میں قالین بافی اور سیپیاں صاف کرنا ان کا ذریعہ معاش ہے، یہ لوگ جو کچھ کماتے ہیں اسی سے کھاتے ہیں، یعنی ان کی زندگی اسی محنت مشقت سے مامور ہے۔ لیکن آج کل یہاں اداسی چھائی ہوئی ہے، کیونکہ سمندر پار ان کے پیاروں پر بدھوں کا ظلم و ستم اور قتل عام جاری ہے۔

گھر ہو یا چائے خانہ، یہاں ہر سو ایک ہی فکر زیرگردش ہے، جس کے لئے دعائیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتیں۔

پینسٹھ سالہ عبدالرحیم کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے، کچھ دن پہلے ان کی زندگی میں اطمینان تھا، سکون تھا، لیکن اب بے قراری اور بے چینی ہے۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر کراچی میں مقیم برمی مسلمان خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، کہتے ہیں رشتے داروں کی کوئی خبر نہیں، وہاں وہ مر رہے ہیں، یہاں ہم سسک رہے ہیں۔

پاکستان برمی مسلم ویلفئیر آرگنائزیشن کے صدر نور حسین بھی یہاں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں، جو کبھی کبھار برما کے روہنگیا مسلمانوں کے لئے ہونے والے احتجاجوں اور مظاہروں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔

نور حسین نے تسنیم نیوز ایجنسی سے گفتگو میں کہا کہ "برما کے حالات پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے، ایران اور ترکی کے علاوہ کوئی مسلمان ملک نہیں، جو روہنگیا مسلمانوں کے لئے آواز بلند کرے۔"

تسنیم نیوز ایجنسی سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ "ساری زندگی یہاں گزر گئی، ساٹھ کی دہائی میں بنگلہ دیش سے پاکستان آئے تو یہیں کا ہو کر رہ گیا، بس ذرا سکون تھا کہ چلو اپنے وطن سے دور ہوں، لیکن باقی خاندان تو اپنے ملک میں اطمینان سے ہے، لیکن وقفہ وقفہ سے بدھوں اور برما کی فوج کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "جب میں یہاں آیا تو میرے ساتھ دو بھائی بھی آئے تھے، جو آج بھی یہاں رہ رہے ہیں، لیکن میں اپنے پیچھے ماں، باپ اور ایک بہن بھائی کو وہاں چھوڑ کر آیا تھا، اس کے علاوہ چچا وغیرہ بھی وہیں تھے، ماں باپ تو اللہ کو پیارے ہوچکے، لیکن اب جو وہاں کے حالات ہیں، ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کیا خبر آجائے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "سعودی عرب کا بیالیس ملکوں کا اسلامی اتحاد کہاں ہے، اقوام متحدہ جو خود کو اقوام عالم کی نمائندہ تنظیم کہتی ہے، وہ بھی مظلوموں کے لئے کچھ نہیں کرتی، اسلامی سربراہی تنظیم بھی غیرفعال ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب نے رونگیا مسلمانوں کو میانمار کی فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، سعودی عرب، پاکستان اور جو بڑے ملک ہیں وہ آگے آئیں، امریکا اور برطانیہ مسلمانوں کی قتل و غارت پر کیوں خاموش ہیں، حتیٰ کہ فلاحی تنظیمیں بھی کوئی احتجاج نہیں کررہی ہیں۔"

نور حسین نے مزید کہا کہ "آن سان سوچی کو امن کو نوبل انعام اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنی رہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سے فوری طور پر نوبل انعام واپس لیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ "ہمارے کچھ رشتے دار برما سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں، جہاں وہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں، لیکن وہان بھی ان کے پاس نہ کھانے کو ہے نہ پینے کو، وہ وہاں مر رہے ہیں اور ان کے لئے ہم یہاں سسک رہے ہیں، ہم اس قدر بے بس ہیں کہ اپنے پیاروں کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔"

انہوں نے حکومت پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہم یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں، لیکن حکومت ہمیں شناختی کارڈ تک نہیں بنا کر دیتی، شناختی کارڈ نہ ہونے کہ وجہ سے نوکری نہیں ملتی، مجبورا سمندر پر مچھلی پکڑتے ہیں، بعض اوقات جان بھی چلی جاتی ہے۔"

کراچی میں مقیم روہنگیا مسلمانوں نے برما کے صوبے ارکان آباد کی یاد میں کراچی کے علاقے کورنگی میں ہی ارکان آباد کے نام سے اپنی بستی بنارکھی ہے، جہاں ان کے کئی خاندان آباد ہیں۔

پینتالیس سالہ محمد بشیر گزر اوقات کے لئے ارکان آباد میں کئی سال سے ایک چھوٹی سی دکان چلارہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ "جب سے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی خبریں سنی ہیں، کسی کام میں دل نہیں لگتا، کھانا پینا، سونا غرض یہ کہ اٹھتے بیٹھتے دھیان برما جاتا ہے کہ وہاں ہمارے بھائیوں کو مارا جا رہا ہے، کاٹا جا رہا ہے، اور ہم یہاں بیٹھے ہیں، مجبوری تو یہی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، یہاں سے برما بھی واپس نہیں جاسکتے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ یہی رو رو کر یا اپنے پیاروں کا یاد کرتے کرتے مر جائیں گے۔"

کراچی کی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے یہاں مقیم روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے دعوے تو بہت کئے لیکن یہ دعوے اور وعدے کاغذی سطح سے آگے نہ بڑھ سکے، اگر حقیقیت میں ان کی زندگی سہل بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے گئے ہوتے تو آج یہ بے بسی کی تصویر نہ ہوتے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری