فاٹا - سلگ کیوں رہا ہے؟


فاٹا - سلگ کیوں رہا ہے؟

دنیا ایک کاروباری منڈی کا روپ دھار رہی ہے جہاں ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیچنا یا خریدنا چاہتا ہے، جسمانی اعضاء سے لیکر ایمان تک کے خریدار موجود ہیں اور بیچنے والے بھی۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: پشتو کی کہاوت ہے؛ "بیوقوف نہ ہوتے تو عقلمند بھوکے مر جائے"، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

دنیا کی صورتحال پر اگر غور کیا جائے تو ہر طرف یہ کہاوت صادق آتی ہے۔ جسے دیکھو اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو استعمال کر رہا ہے۔ جو جتنا استعمال ہوتا ہے، اس پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ دنیا ایک کاروباری منڈی کا روپ دھار رہی ہے۔ جہاں ہر کوئی کچھ نہ کچھ بیچنا یا خریدنا چاہتا ہے۔ جسمانی اعضاء سے لیکر ایمان تک کے خریدار موجود ہیں اور بیچنے والے بھی۔ نہ ملے تو خود تخلیق کئے جاتے ہیں۔

اس منڈی میں منشیات کے ساتھ ساتھ سب سے بہترین کاروبار جنگ ہے، جنگ سے کئی قسم کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اس کے ذریعے اپنی طاقت آزماتی ہیں، اپنا اسلحہ فروخت کرتی ہیں، تباہ شدہ علاقے کی تعمیر نو کے ٹھیکے حاصل کرتی ہیں۔ جنگ روکنے کے بہانے فوج بھیج کر علاقے پر قبضہ کرتی ہیں اور جنگ سے تباہ شدہ معیشت کو سہارے دینے کیلئے قرضہ دیتی ہیں جس کا سود مسلسل ملتا رہتا ہے اس لئے اسلحے کا کاروبار دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔

پہلے زمانے میں بڑی طاقتیں طاقت آزمائی کیلئے جنگیں خود لڑتی تھیں جس کی وجہ سے ان کا کافی جانی اور مالی نقصان ہو جاتا تھا۔ اب انہوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ جب کرائے کے فوجی دستیاب ہوں؛ میدان جنگ کہیں اور سجایا جا سکتا ہو؛ تو اسے اپنے گھر لانا بیوقوفی ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر کی طاقتیں اپنی طاقت مسلم ممالک میں آزماتی ہیں کیونکہ مسلم دنیا میں اس کے لیے افرادی قوت وافر اور سستی ملتی ہے جبکہ مسلم دنیا اسے پاکستان میں لے آتی ہے اور پاکستان بھی مسلم دنیا کے بٹیر کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

پاکستان اسے جی آیاں نوں کہہ کر فاٹا میں دھکیل دیتا ہے۔ فاٹا کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے سادہ لوح عوام مذہب کے نام پر آسانی سے قائل کیے جاسکتے ہیں۔ دوسرا یہاں غدار بھی سستے داموں مل سکتے ہیں۔ پوری دنیا کی جنگ یہیں لڑی جاتی ہے جس کے لیے بیرونی دنیا سے فنڈ ملتے ہیں۔ اس فنڈ سے مقتدر حلقوں کا کاروبار چلتا ہے۔ اس فنڈ کا 10فیصد حصہ بھی اصلی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

پاکستان کی معاشیات کا کافی حصہ اسی فنڈ سے پورا کیا جاتا ہے جس سے پاکستان کا نظام بھی چلتا رہتا ہے۔

فاٹا کے عوام اس جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ سمجھ کر تن من دھن لگا کر کھیلتے ہیں۔ جس کا نتیجہ فاٹا والوں کی دربدری اور بے عزتی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ پہلے اسلام کے سپاہی قرار دے کر انہیں بندوق پکڑائی جاتی ہے۔ پھرجب خفیہ مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں تو حکومت کو دوبارہ فنڈز ملتے ہیں اور مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے کر یہ بندوق واپس چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔ اب چونکہ پاکستان کی معاش کا دارومدار اسی فنڈ سے ہے اس لیے یہ کاروبار بند بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس طرح ملک نہیں چلائے جا سکتے کیونکہ جنگ زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ یہ آگ ہے اور آگ کا رستہ روکنا بہت مشکل کام ہے لیکن انہیں عقل آتی نہیں یا اِن کے پاس عقل ہے ہی نہیں۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری