پیلٹ بندوق کے مضر اثرات پر 88 صفحات پر مشتمل رپورٹ منظر عام


پیلٹ بندوق کے مضر اثرات پر 88 صفحات پر مشتمل رپورٹ منظر عام

عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی طرف سے کشمیر میں پیلٹ بندوق کے قہر سے قوت بصارت کھونے کے نام سے 88 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے۔

عالمی بشری حقوق پاسداری کی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل کی طرف سے کشمیر میں پیلٹ بندوق کے قہر سے قوت بصارت کھونے کے نام سے ایک رپورٹ منظر عام پر لائی گئی جس میں تنظیم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کے بعد ہی کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال پر روک لگ سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سرینگر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ایک پریس کانفرس کا انعقاد کیا گیا جس میں 109 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی گئی رپورٹ پیلٹ گن کے چھروں سے زخمی ہونے والوں اور اس کے مضر اثرات پر مشتمل تھی۔

گزشتہ برس ایجی ٹیشن کے دوران پیلٹ گن کے قہر سے مکمل بصارت کھونے والے یا جزوی طور پر بینائی کھونے والے 88 کیس اس رپورٹ میں ظاہر کئے گئے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایکزیکیٹیو ڈائریکٹر آکار پٹیل اور مقامی ممبر ظہور احمد تنظیم کے لاء و پالیسی کے ڈائریکٹر سلیش رائے اور پیلٹ گن کے قہر سے زخمی ہونے والے منظور احمد اور شبروز میر نے رپورٹ کو تقریب کے دوران جاری کیا۔

ایکزیکیٹیو ڈائریکٹر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکام کشمیر میں فوری طور پر پیلٹ بندوق کے استعمال پر روک لگائیں کیونکہ یہ ہزاروں کشمیریوں کے زخمی، اموات اور قوت بصارت کھونے کا سبب ہے۔

انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کے اس تقریر جو انہوں نے 15 اگست کے موقعہ پر کی تھی کہ "کشمیر میں گالی یا گولی سے تبدیلی نہیں آئے گی" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اس سلسلے میں صدق دل سے سنجیدہ ہے تو پھر اس کو پیلٹ بندوق پر فوری طور پابندی عائد کردینی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اس گن سے متاثرہ بہت سارے افراد نفسیاتی صدمات جسمانی اور ذہنی پریشانیوں سے دوچار ہیں اور اس سے متاثرہ افراد میں سے بہت سارے اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے اور اب وہ مزید روٹی روزی کمانے کے لئے ناامید ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی افراد کی سرجری کے باوجود بھی بینائی واپس نہیں لوٹی جن کے لئے جینا اب دشوار بن گیا ہے۔

پٹیل نے مزید کہا کہ جن 88 کیسوں کو نمایاں کیا گیا ہیں ان میں 31 افراد کی دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہوگئی ہے اور اس فہرست میں 14 خواتین بھی شامل ہیں اور کئی ایک کی موت بھی واقع ہوگئی ہیں تاہم ان واقعات سے متعلق کیسوں کا اندراج بھی عمل میں نہیں لایا گیا جبکہ صرف ایک خاتون نے فورسز کے خلاف کیس درج کیا ہے۔

انہوں نے فورسز کے اس جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا کہ "اگر ہم پیلٹ گن کا استعمال نہیں کریں گے پھر گولیوں کا استعمال کرنا پڑے گا"۔

انہوں نے کسی بھی تشدد آمیز واقعہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سنگ بازی بند ہونی چاہئے تاہم انہوں نے کہا کہ فورسز کا بھی جواز نہیں کہ وہ سنگ بازوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال کریں۔

انہوں نے کہا کہ حکام کا فرض عوامی نظم و ضبط برقرار رکھنا  ہے لیکن پیلٹ گن کا استعمال اس کا حل نہیں ہے انہوں نے فورسز کو مشورہ دیا کہ فورسز مظاہرین کے سنگبازی اور دیگر قسم کے تشدد کو دیگر ذرائع سے بھی نپٹ سکتے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے مواقع پر بین الاقوامی انسانی حقوق کا لحاظ رکھا جائے۔

پریس کانفرنس سے دیگر عہدیداروں اور رضاکاروں نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر بھاری تعداد میں رضاکاروں نے شرکت کی۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری