سعودی-اسرائیل قربتیں؛ شہزادے کا حالیہ خفیہ دورہ حقیقت کا غماز


سعودی-اسرائیل قربتیں؛ شہزادے کا حالیہ خفیہ دورہ حقیقت کا غماز

سعودی عرب اور اسرائیل کی حکومتوں کے مابین قربیتیں بڑھتی جارہی ہیں کیونکہ سعودی شہزادے کا حالیہ خفیہ دورہ اسرائیل اس حقیقت کا غماز ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: مڈل ایسٹ مانیٹر اور روس کی خبر رساں ایجنسی اسپوٹنک کی رپورٹ میں آیا ہے کہ گذشتہ ہفتے سعودی شاہی دربار سے منسلک ایک اہم شہزادے نے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم سمیت اعلیٰ عہدہ داروں سے ملاقات کی ہے۔  

 اسپوٹنک نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیلی براڈکاسٹ کارپوریشن کے ترجمان سیمون آران  نے بتایا ہے کہ  گذشتہ ہفتے ایک اہم سعودی شہزادے نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاھو سے خفیہ ملاقات کی ہے تاہم اس نے شہزادے کا نام بعض وجوھات کی بنا پر بتانے سے گریز کیا جوکہ احتمالا سعودی وزیر دفاع اور ولی عہد پرنس محمد بن سلمان ہوسکتے ہیں۔

 واضح رہے کہ سعودی شہزادے کا خفیہ دورہ اسرائیل،  اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے صرف ایک روز بعد کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات مثالی ہونے جارہے ہیں۔ 

اگرچہ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ  باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم پرنس محمد بن سلمان کو اس حوالے سے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ محمد بن سلمان گزشتہ چند برسوں میں متعدد مرتبہ اسرائیلی حکام سے خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ سعودی ولی عہد کا ایران کے خلاف سخت موقف انہیں اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کے مزید قریب کررہا ہے ۔

قارئین کو یاد رہے کہ تین ماہ قبل جون2017ء  میں صیہونی حکومت کے وزیر مواصلات ایوب قرا  نے کہا تھا (جس کو فلسطین انفارمیشن سینٹر نے بھی رپورٹ کیا)  تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے قیام کا امکان بڑھ گیا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب، امریکہ کی وساطت سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کی غرض سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیر مواصلات ایوب قرا  نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ایران کی جانب سے لاحق خطرات کے بعد اب اسرائیل اور سعودی عرب تعلقات سرفہرست ہیں جبکہ مسئلہ فلسطین کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔

محترم قارئین کو یہ بھی یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی سعودی شہزادے اور چوٹی کے سرمایہ کار پرنس الولید بن طلال نے کہا تھا کہ ان کے ملک کو خلیج میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کا مقابلہ کر نے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی سمجھوتہ کرنے پر بھی غور و فکر کرنا چاہیے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال سعودی عرب کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے کیونکہ ایران فلسطینی کارڈ استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں سعودی عرب اور اسرائیل کو اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں تاکہ ایران کے عزائم کو روکا جا سکے۔

 پرنس ولید نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر فلسطین میں ’انتفاضہ‘ دوبارہ شروع ہوتی ہے تو میں ذاتی طور پر اسرائیل اور اس کی جمہوری قوتوں کا ساتھ دینا پسند کروں گا۔ اگر تل ابیب پر کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تو میں اس کے خلاف اپنا اثرورسوخ استعمال کروں گا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ عرب اسرائیلی دوستی مستقبل میں ایران کے خلاف موثر ہتھیار ثابت ہوگی۔ 

تین ماہ قبل جون 2017 میں  اسرائیلی چینل ٹو نے سعودی عرب کے پالیسی اینالسٹ اور مڈل ایسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر عبدالحمید حکیم کا جدہ میں انٹرویو کیا تھا اور انہوں نے اسرائیل سے تعلقات کے حق میں باتیں کی تھیں۔ حکیم کو حکومتی میڈیا میں اہم اور سرکردہ شخصیت سمجھا جاتا ہے لیکن سعودی عرب میں ان کے اسرائیل کے حق میں دیے گئے انٹرویو کا کوئی رد عمل نہیں آیا اور ایسا انٹرویو سعودی عرب میں اعلی حکام کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح  سعودی روزنامہ الریاض میں ایک کالم اسرائیل کے حق میں بھی شائع ہوا تھا۔ روزنامہ الریاض حکومتی قربت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کالم میں اسرائیل کے مصر اور اردن کے ساتھ امن معاہدوں کی تعریف کی گئی تھی اور یہ لکھا گیا تھا کہ ” اسرائیل کو بے جا شیطانی”  ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اصل مسئلہ ایران ہے۔

سعودی عرب کے معاملات پر عمیق نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق مستقبل قریب میں سعودی عرب کے علیل اور مخلتف بیماریوں میں مبتلا شاہ سلمان اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے اورگزشتہ ماہ اگست میں اپنی 32 ویں سالگرہ منانے والے نئے ولی عہد محمد بن سلمان سعودی عرب کے نئے حکمران بن جائیں گے۔

سن دو ہزار پندرہ میں ہی جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی این ڈی نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ محمد بن سلمان اپنے والد کی زندگی میں ہی تخت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی “سعودی شاہی خاندان” کے ساتھ ساتھ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔

یہ خفیہ رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد جرمن حکومت نے فوری طورعوامی سطح پر اس کی تردید کر دی تھی لیکن بند دروازوں کے پیچھے اعلی جرمن حکام ان خدشات کا تذکرہ بھی کرتے رہے اور ان سے بخوبی آگاہ بھی تھے۔

سعودی عرب خطے میں جیوپولیٹیکل حقیقتوں میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس خطے میں صیہونیوں کی بنائے ہوئے نئی سرحد بندیوں کے پلان کا حصہ بن چکا ہے۔ صیہونیوں کا ایک منصوبہ مستقبل میں عراق میں تیل کی دولت سے مالا مال آزاد کردستان کی ریاست کو وجود میں لانا ہے۔ دوسری مثال عرب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے مصر کی ہے، جو کبھی اس خطے کا طاقتور ملک ہوتا تھا لیکن اب ریاض حکومت کا مقروض ہو چکا ہے۔ اسی مالی امداد کے بدلے مصر نے حال ہی میں بحیرہ احمر کے انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل دو جزیرے تیران اور صنافیر سعودی عرب کے حوالے کیے ہیں۔

مصر نے ان دونوں جزائر پر 1950 میں قبضہ کیا تھا تاکہ اسرائیل کا بحیرہ احمر تک راستہ روکا جا سکے۔

پھر اسرائیل اور مصر کے مابین 1978 میں کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ ہوا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ یہ جزائر جس کسی کے بھی پاس ہوئے، وہ اسرائیل کے فوجی اور سول بحری جہازوں کو نہیں روکے گا۔  اسی لئے ایک منصوبے کے تحت سعودی عرب نے وہ دونوں جزائر خرید لیے تاکہ اسرائیل کے فوجی اور سول بحری جہاز اس راستے سے با آسانی گزر سکیں۔

 اب سعودی شہزادے کا خفیہ اسرائیلی دورہ،  اسرائیلی وزیراعظم کے اس دعوے کے پورا ہونے کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات مثالی ہونے جارہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی پروان چڑھتی محبتیں، مزید کتنے بیگناہ مسلمانوں کو قربان کریں گی؟

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری