کربلا ایک دانشگاہ؛ سانحہ نہیں


کربلا ایک دانشگاہ؛ سانحہ نہیں

محرم الحرام کا مہینہ خونین، غم ناک، دلسوز، صبر و استقامت، شجاعت، جوانمردی اور بہادری کی داستان لے کر فضائے کائنات میں نمودار ہوا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: یہ مقدس اور محترم مہینہ ایک مرتبہ پھر روئے زمین پر موجود انسانیت کو پیغام حریت، پیغام ہمت اور پیغام بہادری لے کر آیا ہے۔

محترم قارئین روئے زمین پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت امام عالی مقام علیہ السلام کے رسمی عزادار کثیر تعداد میں موجود ہیں جو آغاز ایام عزاء کے موقعہ پر سیاہ کپڑے پہنتے ہیں، اونچے اونچے ٹاوروں پر پرچم کشائی کررہے ہیں، روز حسینیہ میں جاکر سینہ زنی کررہے ہیں، لاوڈ اسپیکروں، ٹیپ ریکارڈروں، ٹیلی ویژنوں اور موبائل فونوں کے ذریعے نوحہ سن رہے ہیں لیکن انقلاب کربلا کے اصل اہدف اور مقاصد تک پہنچنے کی سعی نہیں کررہے ہیں ہاں سچ بات ہے کہ یہ عزاداری کے جز ہیں اور اس سے کوئی اعتراض نہیں۔

لیکن ایسے عزادار اس دھرتی پر بہت کم نظر آرہے ہیں جنہوں نے دانشگاہ کربلا سے اصل مغز حاصل کرکے وقت کے یزید، فرعون، نمرود اور چنگیز کو للکارا
ہمارے سامنے مثالیں واضح ہیں جو کوئی سنی سنائی داستانیں یا کوئی افسانے نہیں ہے بلکہ صرف دو دہائی پہلے ایران میں چنگیزیت کے تخت و تاج کو ایک فرزند کربلا نے الٹا پلٹ کردیا ایک طرف پوری سامراجیت، استکباریت اور استعماریت اور طاغوتیت بالواسطہ یا بلا واسطہ ہتھیاروں سے لیس ہوکر میدان کارزار میں اترے تھے تو دوسری طرف فرزند کربلا، دانشگاہ حسینیت کا شاگرد ایک حقیقی عزادار  اپنے رب پر مکمل اعتماد و اعتقاد کے ساتھ دنیائے سامراجیت طاغوتیت اور استکباریت کے خلاف میدان کارزار میں پرچم حریت لے کر بڑی آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوا جس نے دین مبین اسلام کا پرچم بلند کیا۔

اسی طرح لبنان کی سرزمین پر بھی ایک ایسا فرزند عاشورا نمودار ہوا جو حسینیت کے عظیم ترین درسگاہ سے کسب فیض حاصل کرچکا تھا۔ انہوں نے اسرائیل نام کے بڑے سے بڑے دہشتگرد ملک جس کی سرپرستی سامراج کررہا تھا، کو صرف اور صرف 33 روز میں ایک ایسی شکست کی تھپڑ رسید کی کہ امت اسلامیہ کا سر  ایک دم فخر سے بلند ہوا اور تاریخ انسانیت میں ایک بار پھر کربلا کے سربلند پرچم کی یاد تا زہ ہوگئی۔

محترم قارئین رسمی عزادار بھی پرچم بلند کررہے ہیں اور امام خمینی، قائد اعظم امام خامنہ ای، قائد مقاومت سید حسن نصراللہ، شیخ عیسٰی قاسم، شیخ علی سلمان، شیخ ابراہیم زکزکی، جنرل قاسم سلیمانی، سمیت ہزاروں عزادار بھی پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ہزاروں شہدائے اسلام، محسن حججی نے بھی پرچم بلند کیا۔

فرق صرف یہ ہیں کہ شاید ہم رسمی عزادر ایام ہائے عزاء میں پرچم بلند کرکے پھر اپنی جگہ پر واپس آجاتے ہیں اور حقیقی عزادار پرچم بلند کئے ہوئے ہیں اور پرچم کو بلند رکھنے میں اپنی جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے۔

قارئین کرام ایسا فقط عزاداری کے مسئلہ میں نہیں ہے، مسلمانوں کے تمام امور میں بالکل یہی حالت ہے، اربوں کی تعداد میں سے کچھ گنے چنے افراد اسلام کے اصولوں قواعد اور قوانین کی صدق دل سے آبیاری اور پاسداری کررہے ہیں۔

محترم قارئین امام عالی مقام نے کسی مال و دولت، جاہ و حشمت، تخت و تاج یا کسی فردی مفاد کے لئے قیام نہیں کیا بلکہ امت محمدیہ کی اصلاح کرنے کے لئے آپ نکلے، بدقسمتی سے کچھ افراد غلط فہمی کے شکار ہوکر ایسے گمراہ کن تقریریں کررہے ہیں۔ جس امت میں ایک ایسا فاسق و فاجر ظالم و جابر اپنے گندے کرتوت کی وجہ سے تخت اسلامی پر قابض بنا بیٹھا تھا جو شراب، عریانیت، بیہودگی، غنا اور حیوان دوستی کا دلدادہ تھا، جس نے خلافت اہلبیت طاہرین سے غصب کی تھی، ظلم کی انتہا یہ تھی کہ علم و آگہی کے سمندر کو باغی سمجھا جاتا تھا، نواسہ رسول صلہ اللہ علیہ والہ و سلم کو بیعت کی دعوت دی جارہی تھی۔

محترم قارئین امام عالی مقام نے ہمت، بہادری، عزم و استقلال، صبر و استقامت کے ساتھ حق کی علم بلند کی اور ان تمام برائیوں کا خاتمہ اپنے اور اپنے خانوادہ و اصحاب کے مقدس خون سے کیا۔

علمدار کربلا کی ہمت اور بہادری دیکھئے اسلام کی سربلندی کا پرچم کس طرح تھامے ہوئے تھے، اپنے بازوئے مبارک کی پرواہ نہ کی لیکن اسلام کا پرچم بلند رکھا اور اپنے آقا امام وقت کی فرمانبرداری! اللہ اکبر ایک سانس بھی آقا کی مرضی کے خلاف نہ لیا، بازوئے مبارک جدا بھی ہوئے لیکن امام وقت کی فرمانبرداری سے ایک لمحہ بھی پیچھے نہ ہٹے اور ہم رسمی عزادار مولا عباس کی عزاداری کرتے ہیں، آپ کی یاد میں علم شریف بلند کرتے ہیں لیکن اصل درس سے قدرے دوری اختیار کئے ہوئے  ہیں۔

ایک دقیق نظر اپنے افکار، اپنے کردار پر ڈالئے خدارا دیکھئے ہم سیاہ کپڑے بھی پہنتے ہیں، سینہ زنی بھی کرتے ہیں لیکن امام وقت کے ساتھ   کس قدر حمایت و محبت کا اظہار کررہے ہیں۔

سب سے پہلی عزادار شریکة الحسین حضرت زینب سلام اللہ علیہا ! جس نے بعد از عاشورہ مشن کربلا کو آگے لے کر اس طرح اشاعت دین کی کہ یزیدی افواج میں ہلچل مچ گئی، کربلا سے لیکر شام تک کہرام مچ گیا کہ "فزت و رب الکعبہ" کی صدائیں کیسے ایک بار پھر فضاء میں گونج رہی ہیں، زینب کے خطبوں میں جلال حیدری تھا، بزدلی نہیں تھی، خوف و ڈر نہیں تھا، تخت و تاج کی قدر نہیں تھی، یزید کو دربار میں مکار کہا، پردے کے پیچھے نہیں۔

لہذا عزادار حسین علیہ السلام کو ہمیشہ عزادار ہونا چاہئے، غیر فرار ہونا چاہئے، وہ یمن سے لیکر شام، عراق، افغانستان، بحرین اور فلسطین کے مظلومین کا طرفدار ہونا چاہئے، طرفدار سے مراد ہر وقت مظلوم کی درد بھری آواز پر تیار ہونا چاہئے اور سال بھر کے بارہ مہینوں میں حقیقی پیرو حیدر کرار بن کر انسانی حقوق کا پاسدار ہونا چاہئے۔ یہی عزاداری ہے جو اس حالت میں اہلبیت طاہرین علیہم السلام اور واقعہ کربلا پر آنسو بہائے گا وہی آخرت میں موتی بن جائیں گے اور شفاعت کے حق دار بن جائیں گے۔

زاکرین مجالسوں میں مصائب بیان کریں ضروری ہیں لیکن خدارا امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و یاوران کی شجاعت اور جوانمردی کو اس طرح سے پیش کریں کہ عزاداروں کے اندر بھی جلال حیدری، صبر و استقامت امام عالی مقام اور بہادری مولا عباس اور استقلال حضرت زینب علیہم السلام پیدا ہوجائے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری