کرد ریفرنڈم؛ ایران اور ترکی کی سخت مخالفت اور خطے میں نئی کشیدگی کے بادل


کرد ریفرنڈم؛ ایران اور ترکی کی سخت مخالفت اور خطے میں نئی کشیدگی کے بادل

ایران اور ترکی کی جانب سے کرد ریفرنڈم کے حوالے سے سخت الفاظ میں مخالفت کے علاوہ عراقی صدر نے کہا ہے کہ اگر ریاست کردستان کی حکومت و عوام نے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو فوجی مداخلت بھی کی جاسکتی ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ایران اور ترکی کے صدور نے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران عراق کی ارضی سالمیت پر تاکید کرتے ہوئے اس ملک کے شمالی علاقے کردستان میں ہونے والے ریفرنڈم کی سخت مخالفت کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق دونوں رہنماوں نے عراق کے بارے میں متفقہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق کی ارضی سالمیت اہم ہے اور عراق کی ارضی سالمیت کے خلاف کوئی بھی اقدام ناقابل قبول ہے۔

ترک صدر نے کہا کہ کردستان میں ہونے والا ریفرنڈم ترکی کی سلامتی کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔

صدر روحانی نے اس حوالے سے عراق کے وزیر ا‏عظم حیدر العبادی سے بھی ٹیلیفون پر گفتگو کری اور کہا ہے کہ ایران عراق کے علاقہ کردستان میں ہونے والے ریفرنڈم کو ہر گز قبول نہیں کرےگا کیونکہ اس ریفرنڈم کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کے ناپاک  ہاتھ ہیں۔

ایرانی صدر نے عندیہ دیا کہ تہران بغداد حکومت اور عوام کا اس حوالے سے ہرممکن تعاون کریگا۔

دوسری جانب عراق کے صدر معصوم فواد نے بھی کردستان میں ہونے والے رفرندژ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے اسے غیر قانونی قراردیدیا ہے۔

واضح رہے کہ آج عراق کے علاقہ کردستان میں مسعود بارزانی کی قیادت میں ریفرنڈم کرایا جارہا ہے جسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل اور امریکہ علاقائی مسلم ممالک کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔

ترکی اور ایران نے عراقی کردستان کی علیحدگی کی مخالفت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح ان کے ہاں بھی جاری کردوں کی علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ سکتی ہیں۔

جہاں ترک پارلیمان نے عراق میں فوجی مداخلت کا بل منظور کرلیا ہے وہیں ایران نے کردستان جانے والی پروازیں روک دی ہیں۔

مغربی ممالک نے ریفرنڈم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عراق میں ایک اور محاذ آرائی شروع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کے نتیجے میں داعش کے خلاف جنگ سے توجہ بھٹک سکتی ہے۔ تاہم کرد عوام کی بڑی تعداد تمام تر اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے گھروں سے نکل آئی اور ووٹ ڈال رہی ہے۔ استصواب رائے کے نتیجہ کے بارے میں پہلے سے ہی یہ بات ہے کہ نتیجہ عراق سے کردستان کی آزادی کے حق میں ہی آئے گا۔

ریاست کردستان کے صدر مسعود بارزانی نے کہا ہے کہ آزادی ہی کردوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔ انہوں نے عزم کیا کہ ریفرنڈم سے داعش کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہوگی۔

ادھر عراقی حکومت نے کردستان کی ریاستی حکومت پر ریفرنڈم کو روکنے کے لیے زور دیا ہے تاہم کردستان کی خودمختار حیثیت ہونے کے باعث عراقی حکومت قانونی طریقے سے اس استصواب رائے کو نہیں روک سکتی۔

وزیراعظم حیدرالعبادی نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ عراقی حکومت نے کردستان سے بین الاقوامی چوکیوں کا کنٹرول بھی واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ کرد قوم دنیا کے 4 ممالک میں بٹی ہوئی ہے جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام شامل ہیں۔ 1923 میں خلافت عثمایہ کے سقوط کے بعد سلطنت عثمانیہ کے کچھ اس طرح ٹکرے ہوئے کہ کرد قوم کی آبادی ان چار ممالک میں تقسیم ہوگئی۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری