"اللہ کی پناہ اس روز سے جب حرم کا کوئی مدافع نہ ہو"


"اللہ کی پناہ اس روز سے جب حرم کا کوئی مدافع نہ ہو"

شام اور عراق میں انبیاء عظام، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے متعدد مزارات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن مدافعین حرم نے بر وقت اقدام کرکے اس وہابی فتنے کو آگے نہیں بڑھنے دیا ورنہ تو شاید کرہ ارض پر کوئی حرم دیکھنے کو نہ ملتا اور کوئی مزار یا اسلام کا کوئی بھی تاریخی مقام تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: آٹھ شوال جنت البقیع کے انہدام کی برسی کی تاریخ ہے۔ اس وقت مدافعین حرم نہ تھے جو حرم کو وہ ایام دیکھنے پڑے تھے اور آج بھی ان ہی وہابیوں کے سپوت عراق و شام سمیت کئی ممالک میں مشاہد مشرفہ کی مسماری کا استعماری ٹھیکہ لئے ہوئے ہیں۔ شام اور عراق میں انبیاء عظام، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے متعدد مزارات کو نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن مدافعین حرم نے بر وقت اقدام کرکے اس وہابی فتنے کو آگے نہیں بڑھنے دیا ورنہ تو شاید کرہ ارض پر کوئی حرم دیکھنے کو نہ ملتا اور کوئی مزار یا اسلام کا کوئی بھی تاریخی مقام تاریخ کا حصہ بن چکا ہوتا۔

شام میں امریکی ـ صہیونی ـ یورپی سازش کے تحت جنگ شروع ہوئی تو وقت کے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے اس جنگ کو جہنم سے تشبیہ دی جس سے جنگ کی شدت کی مجموعی تصویر کشی ہوتی ہے۔

امریکیوں نے علاقے کے بعض ممالک کی مدد سے مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں بیداری کی تحریکوں کا خاتمہ کرنے کے لئے لیبیا کو نیست و نابود کیا اور شام میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کی۔ ترکی، سعودی عرب، قطر، امارات، کویت اور بحرین نے اس جنگ میں امریکہ ـ اسرائیل اور یورپ کی پیدل فوج کا کردار ادا کیا۔

بیداری کی تحریکیں منحرف ہوئیں، مصر کا انقلاب ناکام ہوا، بحرین اور یمن میں انقلاب جاری رہا لیکن پوری دنیا کی طاقتیں ان دو ملکوں کے انقلابات کو ناکامی کے لئےکوشاں رہیں، بحرین پر آل سعود نے درع الجزیرہ فورسز کی مداخلت کے عنوان سے قبضہ کیا؛ شام میں ربیع العربی کے عنوان سے خانہ جنگی کا آغاز کیا گیا اور امریکہ، یورپ، صہیونی ریاست نیز ترکی، امارات، بحرین، قطر اور کویت و سعودی عرب نے مختلف ٹولے قائم کئے اور القاعدہ سے منشعب گروپوں کی حمایت کی؛ اور یمن پر سعودیوں نے جارحیت کا ارتکاب کیا جبکہ اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام عرب ممالک نے بھی آل سعود کی حمایت کی۔

شام کی سرزمین پر تکفیریوں کی بہار آئی اور نواسی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حرم کی مسماری کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور اتباع و اشیاع یزید کو دعوت اقدام دی گئی۔

پوری توجہات شام، عراق اور بعدازاں یمن کی طرف مبذول ہوئیں۔ شام میں اسد کا تختہ الٹنے کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ یہ دباؤ سیاسی اور عسکری لحاظ سے اس قدر شدید تھا کہ کسی بھی طاقتور ملک کے حصے بخرے کرنے کے لئے کافی تھا اور اگر کامیاب ہوجاتا تو عالم اسلام کو ایک لمبے عرصے تک ایک عظیم المیے کا سامنا کرنا پڑتا لیکن اسلامی مزاحمت تحریک کفر و استکبار کی سازش اور بظاہر اپنوں کی حماقت کے راستے میں آڑے آئی اور اس المیے کا راستہ روک لیا۔

شام کی شکست و ریخت کی سازش اور تکفیریوں کی طرف سے اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوششوں کو بھی صہیونیوں ـ سعودیوں کی ہمہ جہت حمایت حاصل ہے اور اگر یہ ملک شکست و ریخت کا شکار ہوتا اور تکفیری اس پر قبضہ کرلیتے تو علاقے میں ایک عظیم تاریخی المیہ رونما ہوتا اور لاکھوں افراد تہہ تیغ کئے جاتے اور شام واقعی جہنم میں تبدیل ہوتا۔ بلاشبہ تکفیری کسی پر بھی رحم نہ کرتے جیسا کہ انھوں نے ثابت کرکے دکھایا۔

حرم کو خطرہ لاحق ہوا تو مختلف ممالک کے نوجوان مدافعین حرم کے دائرہ کار میں ایران سے شام اور عراق چلے گئے اور اس المیے کا سد باب کیا اور اگر آج وہاں کی شیعہ ـ سنی آبادیاں محفوظ ہیں یا اگر اپنے گھر بار کو خیر باد کہنے پر مجبور کئے جانے والے شیعہ اور سنی اور عیسائی انسانوں کے اپنے گھروں کے لوٹنے کا انتظام موجود ہے اور اگر مساجد اور صوامع موجود ہیں اور اگر عبادت گزار موجود ہیں تو یہ سب یقینا مدافعین حرم کے مرہون منت ہے جن میں کثیر تعداد میں شیعہ اور سنی نوجوان کردار ادا کررہے ہیں اور یہ سب رضاکارانہ طور پر جان کی بازی لگا کر حرث و نسل کی حفاظت کررہے ہیں۔

"وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْكَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِیراً"(سورہ حج، آیت 40)

ترجمہ: اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا [اور ہر زمانے میں کفار کو مؤمنین کے ذریعے مذہبی مقامات سے دفع دور نہ کرتا] تو راہبوں کے ٹھکانوں اور گرجوں اور عبادت کدوں اور مساجد کو ـ جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ـ منہدم کر دیا جاتا۔

وہ شام اور عراق میں اس جنگ میں اسلامی اور انسانی اقدار کا تحفظ کر رہے ہیں اور ایک مسلم ملک کے زوال کا سد باب کررہے ہیں اور دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشت گردوں کو مسلم ممالک میں پلٹ کر انہیں بدامنی سے دوچار کرنے سے روک رہے ہیں۔

آج دنیائے اسلام میں ہی نہیں، یورپی ممالک میں سب جانتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ عراق اور شام کی سالمیت کا تحفظ ان کا اپنا تحفظ ہے اور یہ کہ ان کے ممالک میں بھی دہشت گردی کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لئے مزاحمتی تحریک ـ بالخصوص حزب اللہ ـ جیسی طاقت کی ضرورت ہے اور اگر عراق اور شام میں دہشت گردوں کا مؤثر مقابلہ نہ کیا جائے تو تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں خانہ جنگی کی سی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔

یہ مدافعین حرم کا کمال ہے جنہوں نے اس جنگ کو عالمی دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیا گوکہ دنیا بھر میں صہیونی ـ وہابی چینلز اور وسیع ابلاغی و تشہیری ذرائع صہیونیت کے پجاریوں کے خلاف لڑنے والے ان گمنام اور مظلوم مجاہدین پر طرح طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں اقوام عالم ان کو خراج تحسین پیش کریں گی اور دفاع حرم میں شہید ہونے والوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گی اور ان کے مدفن زیارتگاہوں میں بدل جائیں گے۔

بلا شبہ اگر مدافعین حرم نہ ہوتے تو کسی زیارتگاہ پر حرم باقی نہ رہتا، نہ کوئی مسجد رہتی اور نہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا حرم رہتا، اور سعودی ـ صہیونی لابی کے ماتحت تکفیری عراق پر بھی مسلط ہوجاتے اور ان کے ہاتھ ائمہ اطہار علیہم السلام کے حرم تک اور اپنی دیرینہ اور پلید خواہشات کی تکمیل تک بھی پہنچ جاتے۔

بظاہر مسلم اور عرب حکمرانوں کی انفعالیت اور کفر و استکبار کے سامنے ان کی ذلت و تسلیم کے رویے کے برخلاف مسلمانوں میں سے حتی ایک فرد بھی شام و لبنان میں یہودی ریاست کے ہاتھوں مزاحمت تحریک کی شکست کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر محاذ مزاحمت نہ ہو تو اس ریاست کی پیشقدمی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

بشار اسد ایک سپاہی ہے محاذ مزاحمت کا، اور اگر آج پوری دنیائے کفر اس کی مخالفت کررہی ہے تو مسلمانان عالم اس کو بشار اسد کے حق بجانب ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ: "وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْیَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ"؛(سورہ بقرہ، آیت 120)

ترجمہ: اور آپ سے یہودی اور عیسائی تو اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہو جائیں۔

اگر مدافعین حرم ہوتے تو کیا برطانوی اشارے پر سعودی ـ وہابی مکہ، مدینہ، جدہ اور دوسرے علاقوں میں اسلام کی تاریخ اور مقدسات کو مسمار کرسکتے تھے؟

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری