ایران و عراق؛ اتحاد بین المسلمین کی عمدہ مثال / زیارات مقدسہ پر حاضری دینے سے شیعہ مسلک سے قربت و محبت مزید بڑھ گئی


ایران و عراق؛ اتحاد بین المسلمین کی عمدہ مثال / زیارات مقدسہ پر حاضری دینے سے شیعہ مسلک سے قربت و محبت مزید بڑھ گئی

پاکستان کے اہلسنت نوجوان کا ملک کے تمام اہل سنت برادران کو اپنے پیغام میں کہنا تھا: "ایران اور عراق جائیں، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں، وہ لوگ ہمارا بڑا احترام کرتے ہیں، دونوں ملکوں میں رنگ و نسل، ذات پات یا مسلک کی کوئی تفریق نہیں، شیعہ سنی اتحاد کی بہترین فضا قائم ہے، پاکستان میں بھی ہمیں اسی قسم کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ہم سب ایک قوم بن سکیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: دنیا کے مختلف ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین نے امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر حاضری دی، اور پرسہ پیش کیا، جس میں اہل تشیع کےساتھ ساتھ اہل سنت برادران نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مراسم عزاداری کے سلسلے میں کراچی سے آئے شہزاد احمد سے تسنیم نیوز ایجنسی کے نمائندے نے کربلائے معلیٰ میں خصوصی بات چیت کی ہے، جو نذر قارئین ہے۔

تسنیم:  کراچی سے عراق تک سفر اور وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے، کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ؟

شہزاد احمد: میں نے شیعوں اور کربلا کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا کہ شیعہ ایسے ہوتے ہیں، شیعہ ویسے ہوتے ہیں، میرے دوست حتیٰ کے گھر والے بھی میرے یہاں تنہا آنے کے حق میں نہیں تھے، انہیں شاید خوف تھا کہ شیعہ قافلے کے ساتھ ملک سے دور جانا یقینا خطرے سے خالی نہ ہوگا، جبکہ پاکستان میں یہ سوچ کافی عام ہے، انہی خدشات کے پیش نظر میں کچھ تذبذب کا شکار تھا، سچ پوچھیں تو کہیں نہ کہیں دل میں معمولی سا خوف تھا کہ اتنی دور بالکل تنہا جا رہا ہوں، راستے بھر میں میرا کوئی ہم مسلک بھی نہ ہوگا، لیکن میرے شیعہ دوستوں نے ڈھارس بندھائی، انھوں نے مجھے حوصلہ دیا، اور کہا کہ تم چل کر دیکھو تمام خدشات دور ہوجائیں گے، اور بالکل ایسا ہی ہوا، کراچی سے کوئٹہ، کوئٹہ سے تفتان سرحد، پھر وہاں سے ایران اور پھر ایران سے عراق، سب کچھ بہت ہی زبردست رہا، تمام شیعہ زائرین نے ہر ہر جگہ میرا بہت خیال رکھا، کھانا، پینا، سونا، عبادت غرض یہ کہ کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کسی اور کے ساتھ اپنے ملک سے بہت دور آیا ہوا ہوں، ابھی آپ نے پوچھا تو مجھے یاد آیا، ورنہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ایک ہی خاندان کے افراد ہیں۔

تسنیم: بذریعہ بس پاکستان سے ایران اور ایران سے پاکستان کچھ تو مشکلات درپیش آئی ہوں گی، اس بارے میں کچھ  بتائیے؟

شہزاد احمد:  نہیں، نہیں، میں نے کہا ناں کہ کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، سب ہی لوگ بہت اچھے ہیں، خواتین اور مرد سب ایک خاندان کی مانند ہیں، سب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، البتہ ایرانی سرحد جاتے ہوئے راستے میں کافی پریشانی ہوئی تھی، کراچی سے کوئٹہ تو پہنچ گئے تھے، لیکن کوئٹہ سے تفتان جانے کے لئے ہمیں بلوچستان حکومت کی اجازت درکار تھی، اور مسئلہ سیکورٹی کا تھا، پولیس اور ایف سی اہلکار زائرین کی بسوں کو اکیلا بارڈر نہیں جانے دے رہے تھے، ان کا منصوبہ یہ تھا کہ پہلے بیس تیس بسیں جمع ہوجائیں، ہھر ایف سی اہلکاروں کی گاڑیوں کی زیر نگرانی زائرین کو تفتان پہنچایا جانا تھا، اسی طرح سرحد پر ناقص انتظامات کی وجہ سے بھی کافی دشواری ہوئی، پینے کا پانی بامشکل دتسیاب تھا، اسی طرح کھانا اور بیت الخلاء کی سہولتیں بھی ناکافی تھیں، ایک انتظار گاہ بنی ہوئی تھی، جس میں صرف پانچ سو افراد قیام کرسکتے تھے، لیکن بیس تیس بسوں میں ہزاروں افراد تھے، اس لئے ان کے قیام میں خاصی مشکل پیش آئی، بہرحال وقت گزر گیا۔

تسنیم : عراق آتے ہوئے آپ نے ایران میں بھی قیام کیا ہوگا، ایران اور ایرانیوں کو کیسا پایا؟

شہزاد احمد: جی ہاں، ہم لوگ زاہدان سے مشہد مقدس پہنچے، وہاں تین روز رہے، پھر قم میں بی بی معصومہ علیہا السلام کی زیارت کے لئے دو روز قیام کیا، سارے لوگ، سارا ایران مجھے بہت پسند آیا، ایران کی سڑکوں کی نفاست اور صفائی کے عمدہ نظام نے مجھے بہت متاثر کیا، سارا ایران ہرا بھرا ہے، لوگ بھی خوبصورت ہیں، جدید گاڑیاں اور مشینری ہے، لوگ فیشن کے بھی دلدادہ ہیں، محسوس نہیں ہوتا کہ یہ وہی ایران ہے جس پر امریکا نے پابندیاں لگائی ہوئی ہیں، آج کا ایران ترقی میں پاکستان سے کافی آگے ہے، مشہد میں حضرت رضا علیہ السلام اور قم میں بی بی معصومہ علیہا السلام کے مزارات کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوگئیں، کیا جاہ  و جلال ہے، کیا رعب و دبدبہ ہے، اور اس پر صفائی اور بہترین انتظام، واہ واہ! ایران اور ایرانیوں کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔

تسنیم: ایران سے عراق تک کے سفر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

شہزاد احمد: نہیں وہاں تو کوئی مشکل نہیں ہوئی، بلکہ جگہ جگہ راستے میں پانی کی سبیلیں لگی ہوئی تھیں، ایران، عراق سرحد پر تمام انتظامات بھرپور تھے، وضو خانہ اور نماز کے کمرے بھی تھے، انتظار گاہ بھی کافی وسیع تھی، ٹیلی ویژن چل رہے تھے، کونے پر چاروں طرف چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی تھیں، جہاں سے چائے بھی پی، لیکن بغیر دودھ کے۔ البتہ زائرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے امیگریشن میں کچھ دیر لگی، لیکن ہر کام بڑا مناسب اور بہترین طریقے سے انجام پا رہا تھا۔

تسنیم: سرزمین عراق پہنچنے کے بعد کیا جذبات تھے، اپنی دلی کیفیت ہمارے قارئین سے بھی شیئر کریں؟

شہزاد احمد: عراق پہنچتے ہی ہم سب پر ایک رقت سی طاری ہوگئی، میرے خیال سے ہر آنکھ اشک بار تھی، شاید یہ زمین ہی ایسی ہے، جو انبیاء اور امام حسین علیہ السلام کی وجہ سے حزن و ملال سے پر ہے، یہی سب میرے ساتھ بھی ہوا، نجف اشرف میں خلیفہ چہارم حضرت علی علیہ السلام کے مزار میں داخل ہوتے ہی دل میں ایک سکون کی فضا پیدا ہوگئی، ایسا سکون جو شاید اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کیا، ہم وہاں تین روز رہے، بغداد گئے، وہاں حضرت امام موسیٰ کاظم اور امام علی نقی علیہما السلام کے مزار پر گئے، سامرہ بھی گئے، وہاں بھی دو اماموں کے مزار اقدس پر حاضری تھی، سب کچھ بہت اچھا لگا، سارا سفر بڑا آرام دہ رہا، بغداد کا تاریخی پل بھی دیکھا، بلکہ سارا عراق ہی مجھے تو تاریخی لگا، مزاروں کی تزئین و آرائش بہت زبردست ہے، سڑکیں پکی اور کشادہ ہیں، لگتا نہیں کہ یہ وہی عراق ہے جس کا کویت، ایران اور امریکا سے جنگوں میں سارا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا تھا، آج بھی عراق ترقی میں دنیا کے کئی ملکوں سے آگے ہے۔

تسنیم: کربلا کو کیسا پایا، کیسی عزاداری دیکھی، کوئی روک ٹوک تو نہیں ہوئی؟

شہزاد احمد: نہیں نہیں، کوئی روک ٹوک نہیں، کربلا والوں کا تو جواب نہیں، زائرین کے آگے بچھے جاتے ہیں وہ لوگ، ان کا بس نہیں چلتا کہ اپنی آنکھوں پر ہمیں بٹھالیں، امام حسین علیہ السلام کے غم میں سارا عراق سیاہ پوش و ماتم دار ہے، میں نے بھی امام عالی مقام کے مختلف مقامات کی زیارت کی، میں حرم میں نماز پڑھتا تھا اور وہ بھی اپنے مخصوص اسٹائل میں، لیکن کسی نے کبھی نہیں روکا، گویا اتحاد بین المسلمین کی عمدہ مثال ہے عراق، ایران میں بھی یہی صورتحال تھی، میرے خیال سے ایران اور عراق صرف عبادت کو ترجیح دیتے ہیں، طریقہ کار کو نہیں، ان کا مقصد اللہ کو پکارنا اور اس کی حمد ثناء ہے، اسی لئے مجھے کہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، بلکہ گھر والوں کو بھی فون پر بتایا کہ آپ سب لوگ بھی یہاں ضرور آئیں، یہاں کسی قسم کی فرقہ واریت یا مسلکی تعصب نہیں، یہ صرف ہماری اپنی سوچ ہے، اور ویسے بھی امام حسین علیہ السلام جتنے شیعوں کے ہیں، اتنے ہی ہمارے بھی ہیں، بلکہ شیعہ ہمارے بھائی ہیں، جن سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں۔

تسنیم: ایران اور عراق سے کوئی خاص پیغام جو آپ کراچی لے کر جائیں گے؟

شہزاد احمد: ہاں بالکل، میرا تمام اہل سنت برادران کو یہ پیغام ہے کہ شیعہ مسلک ہم سے کوئی خاص مختلف نہیں، ہم سب ایک اللہ کو ماننے والے ہیں، ہمارا نبی ایک ہے، قران ایک ہے، پھر ہم ایک کیوں نہیں ہوتے، میں سب سے یہی کہوں گا کہ ایران اور عراق جائیں، وہاں کے لوگوں سے ملاقات کریں، وہ لوگ ہمارا بڑا احترام کرتے ہیں، دونوں ملکوں میں شیعہ سنی کے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہے، پاکستان میں بھی ہمیں اسی قسم کے اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا، تاکہ ہم سب ایک قوم بن سکیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری