عمل میں سنی، بیعت میں شیعہ اور میری بنیاد سلفی اور میرا ذوق صوفی ہے


عمل میں سنی، بیعت میں شیعہ اور میری بنیاد سلفی اور میرا ذوق صوفی ہے

شامی مفتی اعظم ڈاکٹر احمد بدر الدین محمد ادیب حسون اپنے کشمیر کے دورے میں مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی سے دوری اختیار کرنے اور وحدت کا پیغام دیتے ہوئے کہا: "میں تمام اسلامی فرقوں کی پیروی کرتا ہوں، میں عمل میں سنی، بیعت میں شیعہ اور میری بنیاد سلفی اور میرا ذوق صوفی ہے۔"

میں تمام اسلامی فرقوں کی پیروی کرتا ہوں، میں عمل میں سنی، بیعت میں شیعہ اور میری بنیاد سلفی اور میرا ذوق صوفی ہے۔

شامی مفتی اعظم ڈاکٹر احمد بدر الدین محمد ادیب حسون اپنے کشمیر کے دورے میں مسلمانوں کو مذہبی انتہا پسندی سے دوری اختیار کرنے اور وحدت کا پیغام دیا۔

ڈاکٹر احمد بدر الدین محمد ادیب حسون نے اسلامی یونیورسٹی سے شافعی فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ وہ 2005 میں شام کے مفتی اعظم مقرر ہوگئے تھے۔

انہوں نے Kashmir Observer سجاد حیدر اور رپورٹر عاقب جاوید سے یورپ اور شام کے حالات پر گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔

سوال: شام میں جو ہو رہا ہے اس پر آپ کی کیا رائے ہے ؟

حسون: میں پہلے کشمیر کے بارے میں بات کروں گا، ہمیں میڈیا کے ذریعے کشمیر کے بارے میں معلومات ملتی تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ یہاں عام زندگی کا کوئی تصور نہیں ہو گا، جب کشمیر کو دیکھنے کا موقع ملا تو جیسے زمین پر جنت ہو، ہم نے کشمیر کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔

پہلے زمانے میں بھارت سے علماء شام اور دوسرے ممالک میں تعلیم کے لیے آتے تھے، میری لائبریری میں اکثر کتابیں ہندی علماء کی ہیں، میری تمنا ہے کہ کشمیر میں صلح کا قیام ہو۔

میری نظر میں انڈیا، پاکستان، میانمار، بنگلادیش، سریلنکا متحد ہو سکتے ہیں جیسا کہ یورپ میں ایک ہی پارلیمنٹ ہے، میں وہاں تقریر کے لیے گیا اور یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ ایک ہی چھت کے نیچے 14 زبانیں بولنے والے متحد ہیں۔

70 سال پہلے انگلینڈ اور فرانس نے شام کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا، لبنان، فلسطین، اردن اور شام۔ یہ کام ان کے دو وزراء خارجہ سایکس اور پیکو نے کیا، شامی چاہتے ہیں کہ سب متحد رہیں اس لیے شام کو سزا دی جار ہی ہے، شام کی فوج جب لبنان گئی تھی تو لبنان چار حصوں میں تقسیم تھا، یعنی سنی، شیعہ، عیسائی اور دروزی۔ اور جب شامی فوج واپس آئی تو لبنان متحد تھا۔

شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ اور اس کے ساتھی کر رہے ہیں تاکہ ہم ایک نہ ہو سکیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کمزور رہے، اسلام کو سنی، شیعہ میں تقسیم کر دیں۔

سوال: آپ کی نظر میں جو کچھ شام میں ہو رہا ہے، وہ امریکہ کروا رہا ہے، یا یہ عوامی انقلاب ہے؟

حسون: عوام، مغربی میڈیا کی باتوں پر توجہ نہ دیں۔ آپ خود جا کر دیکھ لیں، میڈیا پر ہمیں کشمیر کے بارے میں بھی یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ کشمیری ایک دوسرے کا قتل کرتے ہیں اور انتہا پسند ہیں پر یہاں آکر دیکھا ایسا کچھ نہیں پایا، بلکہ یہاں کے لوگ مہربان اور مہمان نواز ہیں۔

شام میں 23 فرقے ہیں ہم ان میں سے کسی کو بھی اقلیت نہیں سمجھتے ہیں سب شامی شہری ہیں، امریکہ شام کے اتحاد کو پسند نہیں کرتا اس لیے ہمارے خلاف ایسے منصوبے بنائے گئے ہیں، پر دشمن کو اس میں شکست ہوئی ہے۔ اور شام واحد عرب ملک ہے جو اسرائیل کے مخالف ہے۔

سوال: مسلمانوں میں یہ سوچ تھی کہ شام میں جہاد خلافت کے نظام کے لیے تھی؟

حسون: شام میں جمہوری معاشرہ ہے۔ جہاں شیعہ، سنی اور عیسائی رہتے ہیں۔ جو مذہبی جنگ کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ اسلام میں شدت پسندی کو رائج کر رہے ہیں۔

مختلف ممالک سے افراد کو شام میں بھیجا گیا تاکہ نام نہاد خلافت بنائیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا تھا کہ شام میں اسلام ہمیشہ باقی رہے گا، ان افراد (داعشیوں) نے پہلے اپنے ممالک میں اسلامی نظام کیوں قائم نہیں کیا؟ یہ لوگ اسرائیل سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ مسجد اقصیٰ کو آزاد کیوں نہیں کرواتے ہیں؟

اسلام امن کا دین ہے، ہم شام میں کامیابی کے قریب ہیں اور عنقریب کوئی بیرونی جنگجو باقی نہیں رہے گا۔

امریکہ ان دنوں داعش کے سربراہان کو پرامن جگہ منتقل کر رہا ہے، کیا آپ ایسے خلیفہ کو چاہتے ہیں جس کی حمایت امریکہ کرتا ہے؟

سوال: آج عوام شدت پسند اسلام کی طرف جا رہے ہیں کیا یہ علماء کی کمزوری نہیں ہے؟

حسون: امام ابوحنیفہ نے عراق میں اپنی فقہ کی بنیاد رکھی، اور 10 سال بعد مصر چلے گئے اور ان کی فقہ میں تبدیلی آ گئی اور انہوں نے کہا: "میں نے جو عراق میں کہا تھا اس پر عمل نہ کرو"، 10 سال میں ان کی اسلام کو دیکھنے کے طریقے میں تبدیلی واقع ہوئی، انہوں نے اسلام کو نہیں بدلا، اسلام اعتقاد اور طریقت ہے جس کو لوگ مختلف نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

علماء کو اپنے گھروں کو ترک کرنا ہو گا، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ کبھی ایک جگہ محدود نہیں ہوئے، وہ عوام میں رہتے تھے، اور اسلام کا پیغام ان تک پہنچاتے تھے۔

مجھے دکھ ہوا کہ انڈیا میں مجھے کچھ مدارس میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ یورپ میں مجھے اجازت دی گئی کہ طالب علموں سے گفتگو کروں، یہ ہمارے تعصب کی وجہ سے ہے۔ اور ایسا کرکے ہم صرف اپنے آپ کو محدود کر رہے ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ رحمت للعالمین ہیں اور ان کا پیغام کسی خاص فرقے کے لیے نہیں تھا۔

ان مسائل میں بیرونی قوتوں کا بھی کردار ہے، جیسا کہ ہند اور پاک کو برطانیہ نے تقسیم کیا، برطانیہ نے کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کیا وہ چاہتے تھے پاک بھارت اسی مسئلے پر جنگ کرتے رہیں۔

ہم سب کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے، سنی اسلام یا شیعہ اسلام کی بات نہیں کرنی چاہئے، سب کو اتحاد کی ضرورت ہے۔

میں کشمیری علماء کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ دنیا کو دیکھے اور اپنی فکر کو وسعت دے۔

سوال: کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ شام اب نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، اور جنگ ختم ہونے والی ہے؟

حسون: جی، اور میں کشمیری بھائیوں سے چاہتا ہوں کے وہ شام میں تعمیر نو کے لیے مدد کریں، اور شام میں تجارت کریں، تاکہ شام مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل بن سکے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری