پاکستان کی مشکلات کا واحد حل "مستقل وزیراعظم" تو الیکشن 2018 میں کیوں؟


پاکستان کی مشکلات کا واحد حل "مستقل وزیراعظم" تو الیکشن 2018 میں کیوں؟

اگرچہ پاکستان میں بھی برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام موجود ہے اور ایک پارٹی حاکم ہے لیکن آپ کسی سے بھی سوال کریں تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ فلاں شخص کی حکومت ہے، نہ کے فلاں پارٹی کی!

خبر رساں ادارے تسنیم کو ارسال کئے گئے یادداشت میں حسام کیان مقدم نے لکھا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں بھی حکومت کرنے کا طریقہ برطانیہ کی طرح پارلمانی طرز کا ہے اور ایک پارٹی حکومت کرتی ہے  لیکن اگر آپ کسی بھی پارلیمانی سسٹم کی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص سے سوال کریں تو اس کا جواب ہو گا کہ فلاں شخص کی حکومت ہے نہ کے فلاں پارٹی کی !

اس کی واضح دلیل یہ ہے کے نوازشریف، عمران خان، بے نظیربھٹو کے نام ان کی پارٹییوں سے زیادہ مشہور ہیں اور جب لوگ کسی پارٹی کے نمائندوں کے حق میں  ووٹ یا رائے دیتے ہیں تو دراصل وہ کسی مشخص شدہ فرد کو ووٹ دے رہے ہوتے ہیں جیسے کے 2013 کے انتخابات میں پارلیمنٹ کی 342 سیٹوں میں سے 189 سیٹوں پر لوگوں نے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو منتخب کیا۔

اگر اس امر کو مزید واضح کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ 189 وہ امیدوار کامیاب ہوئے جو پہلے سے نوازشریف کے وزیراعظم بننے کے حامی تھے اور اسی ترتیب سے پاکستان کے اہم صوبہ پنجاب کی حکومت اور اگر مبالغہ نہ ہو تو اپوزیشن بھی انہی کو ملی اور دوسری طرف دیکھیں تو 47 وہ لوگ منتخب ہوئے جو آصف علی زرداری اور 33 عمران خان کے وزیراعظم بننے کے حق میں تھے۔

اس تمہید کے بعد اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں جس بھی دلیل کی وجہ سے ٹھیک یا غلط تین ماہ پہلے نوازشریف کو نا اہل قرار دیاگیا اور وزارت عظمیٰ کی کرسی ان کے ہاتھ سے چلی گئی اگر دقیق نگاہ سے دیکھا جائے تو 2018 کے انتخابات میں شاہدخاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ بہت اچھا اور عاقلانہ تھا لیکن اگر حقیقت پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ نیتجہ سامنے آتا ہے کہ وقت گزرانی کے لیے  تو ٹھیک ہے لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ ہونے والا نہیں کیونکہ اس سے پہلے جنرل یحییٰ کے ذریعے جو نقصان پاکستان نے اٹھایا وہ پاکستان کی نئی نسل دیکھ چکی ہے۔

اگر کسی بھی صاحب نظر پاکستانی سے سوال کریں تو وہ جواب دیگا کہ وزیراعظم کے حساس ترین منصب کے لیے نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد عمران خان میں صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس عہدے کو سنبھال سکے۔ اس امر کا اگر مشاہدی کیا جائے تو اگرچہ شاہد خاقان عباسی ہی موجودہ وزیراعظم پاکستان ہیں لیکن ان کے پاس کوئی پاور نہیں، کیونکہ پارٹی والے صرف نوازشریف کو جانتے ہیں۔ 189 پارلیمانی نمائندوں نے جو ان کو ووٹ دیا ہے ان کے مدنظر نواز شریف تھا وہ صرف اسی کو جانتے ہیں اور ان کا صرف نام لکھا گیا ہے اور یہ اسی طرح ہے کہ حکومت اسی کی ہے شاہد خاقان عباسی مجبور ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا کام انجام دینے کیلئے نوازشریف کی خدمت میں حاضر ہو چاہے اس کے لیے ان کو لندن کا سفر کیوں نہ کرنا پڑے اور کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکلے جو نواز شریف کو ناراض کرے اور دوسرے  لفظوں میں عدالت نے جس شخص کو نااہل قرار دیا تھا اس کی حکومت اب اسی طرح چل رہی ہے بس صرف ایک  شخص کا اضافہ ہوا ہے۔

اور یہ اس چیز کا باعث بنا ہے کہ پاکستان کے بیرونی دشمن اس کو کمزور سمجھ رہیں ہیں اور اس کے خلاف جو چاہیں کریں یہاں تک کہ امریکی وزیر دفاع اپنے سرکاری بیان میں کہتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورت حال بہت افسوناک ہے۔ اس کا حل کیا ہے اب پانی تو سر سے گزر چکا ایک فٹ ہو یا سو فٹ ! اس سے کیا فرق پڑتا ہے یہ طے ہوا تھا  کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیراعظم اپنے دور حکومت کو مکمل کرے لیکن  نہ کر سکے۔ اب کیسے ایک کمزور ملک اپنا سفر آگے بڑھائے تو اس کے لیے ضروری ہے کی فوری الیکشن کرائے جائیں تو سب پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔

اس میں شک نہیں کہ بڑے کاموں کے لیے بڑے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وزیراعظم ایسا جو بیس کروڑ آبادی والے ملک کو چلائیں کوئی آسان کام نہیں جب نواز شریف موجود تھے تو کوئی مشکل  نہیں تھی لیکن اب وہ نہیں ہیں تو ایک ملک کو انتخابات تک لے جانا ناانصافی ہوگی۔ لے دے کے عمران خان ہی ہے جو ملک کو چلاسکتا ہے اور یہ بات حزب اقتدار کے سرکردہ راہنما بھی جانتے ہیں۔ عمران خان کی خدمات شوکت خانم ہسپتال کی وجہ اچھی ہیں اور آخری سالوں میں اپنے آپ کو مشکلات سے بھی اچھے طریقےسے نکالا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ہر بات کو دلیرانہ انداز سے کرتا ہے اور موقع سے فائدہ بھی خوب اٹھاتا ہے لیکن ابھی انتظار کرنا ہو گا الیکشن تک اور ایک مستقل وزیراعظم ہی پاکستان کی مشکلات کا حل ہے اور جس کا جواب آئندہ تین چار ماہ میں سامنے آجائےگا لیکن سوال یہ ہے کی ایک ملک کاوقت ضائعہ کیوں ہو؟

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری