طالبان کا داعش کے ساتھ کسی صورت اتحاد ممکن نہیں/ امیر نے داعش سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا ہے


طالبان کا داعش کے ساتھ کسی صورت اتحاد ممکن نہیں/ امیر نے داعش سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا ہے

ترجمان افغان طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اس گروہ کا داعش سے اتحاد کے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں، داعش نے مسلمانوں کی تکفیر کی ہے جبکہ گروہ کے امیر نے ان سے لڑنے کا حکم دیا ہے۔

ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے تسنیم سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بعض افغانستانی خبررساں اداروں کا طالبان اور داعش کے اتحاد کے بارے فرمان کا صدور ایک مکروہ پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں جس کا مقصد عوام کے اندر خوف و ہراس پھیلانا اور امریکی فوج کو افغانستان میں رہنے کا بہانہ فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے دہشتگرد گروہ داعش کے بارے میں واضح کیا کہ یہ گروہ اپنے دفاع سے محروم مظلوم مسلمانوں کا قتل اور ان کی تکفیر کو جائز سمجھتے ہیں اس لیے ان سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔

واضح رہے کہ بعض خبر رساں اداروں نے قندھار پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزق  سے نقل کرتے کہا ہے کہ طالبان کے امیر نے افغانستان کے صوبہ ہلمند کے دارالحکومت موسی قلعہ میں اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ دہشتگرد گروہ داعش کی مخالفت سے اجتناب کیا جائے لیکن  ذبیح اللہ مجاہد نے اس خبر کو جھوٹا قرار دیا ہے۔

مجاہد نے طالبان کے قامیر ملا ہیبت اللہ کے موسی قلعہ کے دورے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا طالبان کے امیر کا زیر کنٹرول ریاستوں کا دورہ معمول کی کارروائی تھی جس کا مقصد جہادی صف بندی کا معائنہ تھا۔

ترجمان افغان طالبان نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم داعش پر حملہ نہ کرنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں یہ دشمن کا پروپیگنڈا ہے، امیر طالبان نے داعش سے مقابلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔

انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ دہشتگرد تنظیم داعش مسلمانوںکو کافر قرار دیتی ہے اور ایسے مسلمانوں کو قتل کرنا جائز سمجھتی جو اپنا دفاع بھی نہیں کرسکتے۔ مظلوم مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کررہی ہے لہٰذا اس گروہ سے اتحاد ممکن نہیں بلکہ طالبان افغانستان میں اس فتنہ گر گروہ کو آنے یا کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ طالبان کے امیر نے پورے ملک میں مجاہدین کو داعش کی ہر قسم کی سرگرمیوں کو روکنے کا حکم دیا ہے۔

ترجمان افغان طالبان نے طالبان کے امیر کی افغانستان کے مختلف شہروں میں موجودگی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے جبکہ جنرل عبدالرزاق کا طالبان کے امیر کے حوالے سے کسی خاص ملک سے ہلمند کی جانب سفر کرنے پر مبنی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ افغانستان کے ہی مختلف شہروں میں زندگی گزار رہے ہیں اور جہادی امور کو خود معائنہ کررہے ہیں۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ قندھار پولیس کے سربراہ جنرل رزاق نےکہا تھا کہ طالبان کے امیر پاکستان پر عالمی دباو کے باعث ہلمند کے موسی قلعہ میں داخل ہوئے ہیں اور اپنے 15 کمانڈروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ داعش سے لڑنے سے گریز کریں کیونکہ دونوں کے اہداف ایک ہیں۔

دوسری جانب مغربی افغانستان میں طالبان کی کونسل نے دو روز قبل اپنے بیان میں خبردار کیا ہے کہ دہشتگرد گروہ داعش امریکہ اور اسرائیل دے وابستہ ہے لہٰذا ان کے ساتھ کسی قسم کا کام اور مصالحت نہ کی جائے۔

یہ بیان طالبان کمانڈروں نے صوبہ ہرات کے شہروں "کشک کھنہ، کشک رباط سنگی، گلران اور کئی دیگر علاقوں میں موجود اپنے حامیوں کے نام جاری کیا تھا تاکہ مغربی افغانستان سے داعش کو ختم کریں۔

چند روز قبل بزنس ریکورڈر نے لکھا تھا کہ ان دنوں جو چیز سب کو زیادہ سے زیادہ طالبان کی طرف متوجہ کرتی ہے وہ داعش کا سنگین خطرہ ہے بطور یقین امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک داعش کو افغانستان میں تقویت دے رہے ہیں اور اس وقت طالبان ہی میں اس گروہ سے مقابلے کی طاقت اور اسے شکست دینے کی صلاحیت  ہے۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری