فوج کو قومی سلامتی کمیٹی میں معیشت پر تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے تھا، وزیر دفاع


فوج کو قومی سلامتی کمیٹی میں معیشت پر تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے تھا، وزیر دفاع

وزیر دفاع خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ اگر پاک فوج کو ملکی معیشت کے حوالے سے کوئی تحفظات ہیں تو ان کا اظہار قومی سلامتی کمیٹی میں کیا جانا چاہیے تھا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رُخ‘ میں بات کرتے ہوئے ملکی معیشت کے حوالے سے پاک فوج کے بیان پر وزیر دفاع نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں اتارچڑھاو آتے رہتے ہیں، فوج سے اداروں کی بنیاد پر بات کی جائے گی، فوج کو معیشت پر تحفظات تھے تو اظہار قومی سلامتی کمیٹی میں کرنا چاہیے تھا۔

خرم دستگیر نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کے بیان کے حوالے سے کہا کہ ’ہماری نظر میں بھارت کا خطے میں صرف معاشی پارٹنر کے طور پر کردار ہوسکتا ہے، پاکستان خطے میں بھارت کے سیکیورٹی کردار کو یکسر مسترد کرتا ہے، بھارت کے جنگی عزائم میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے، ایک طرف وہ ہماری مشرقی سرحد پر مسلسل اشتعال انگیزی کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دراندازی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان، بھارت کے خطے کے ’چوکیدار‘ کے طور پر کردار کو مسترد کرتا ہے، تاہم معاشی اور تجارتی طور پر ہمارے دروازے بھارت کے لیے کھلے ہیں۔‘

خرم دستگیر نے کہا کہ ’بھارت اور امریکا کے درمیان پچھلے 17 سال سے قربتیں بڑھ رہی ہیں اور امریکا، بھارت کے ذریعے چین پر دباؤ رکھنا چاہتا ہے، سی پیک پر امریکا کو خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہو رہی ہیں، سی پیک پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا بیان بھی مسترد کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکا کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو بھارت یا افغانستان کی عینک سے نہ دیکھے، یہ 2009 والا پاکستان نہیں ہے، یہ ضرب عضب اور ردالفساد کے بعد والا پاکستان ہے جس میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعے کے بعد پورا قومی بیانیہ تبدیل ہوا کہ ہمیں ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے جس کے لیے ہم نے پہلے بھی بہت قربانیاں دیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ڈومور سے زیادہ اپنی دفاعی صلاحیت اور معاشی نمو کو قائم رکھنا ہے، لیکن ہمارا اس حد تک ڈومور کا مطالبہ بنتا ہے کہ ہم جو پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رے ہیں اس کے لیے پاکستان کی مدد کو کوئی نہیں آیا، تو دنیا کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جو چاہتے ہیں ہم وہ خود اپنے وسائل سے کر رہے ہیں، ہمارا امریکا سے امداد کا مطالبہ نہیں ہے، ہم امریکا سے افغانستان میں ذمہ داری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

گھر کی صفائی سے متعلق وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ کے بیانات سے متعلق وزیر دفاع نے کہا کہ ’گھر کی صفائی سے متعلق خواجہ آصف اور احسن اقبال کے بیانات کو غلط سمجھا گیا، ہمیں اپنے گھر کی صفائی کرنی ہے، پاکستان مکمل طور پر صاف نہیں ہوا لیکن پاکستان میں اب کسی دہشت گرد تنظیم کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی ہورہی، ہم نے دہشت گردی سے لڑ لیا اب انتہا پسندی اور تشدد سے لڑنا ہے۔‘

جنوبی ایشیا اور افغانستان کے حوالے سے امریکا کی نئی پالیسی سے متعلق خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی حقائق کے برعکس ہے، اس وقت افغانستان کے 40 فیصد علاقے میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، انٹیلی جنس شیئرنگ کی بنیاد پر غیر ملکی خاندان کو پاکستان سے بازیاب کرائے جانے کی خوشی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ آپریشن سرحد کے اس پار کیوں نہیں ہوا، طالبان پر پاکستان کا اثر پہلے سے بہت کم ہے اور خطے کے چند دیگر ممالک اپنے مفادات کی خاطر ان کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری