وفاق اور صوبائی حکومت لاپتہ افراد کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام


وفاق اور صوبائی حکومت لاپتہ افراد کی معلومات فراہم کرنے میں ناکام

وفاق اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے اعلیٰ حکام سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود لاپتہ افراد کی معلومات کے بغیر ہی خالی ہاتھ عدالت میں پیش ہو گئے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 26 اکتوبر کو جسٹس اعجاز افضل خان کی صدارت میں عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے دونوں حکومتوں کو لاپتہ افراد کے بارے میں، ان پر لگنے والے الزامات، قانونی طور پر مقدمہ چلایا گیا یا نہیں اور ان کے قید کیے جانے کی مدت کی معلومات فراہم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

ڈان نیوز کے مطابق عدالت عظمیٰ میں 16 مختلف لاپتہ افراد کے ورثا کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت جاری ہے اور ان تمام کیسز میں الگ الگ احکامات جاری کیے گئے تھے، عدالتی احکامات میں لاپتہ افراد کی انکوائری کمیشن کو 15 دن میں رپورٹ جمع کرانے جبکہ کچھ کیسز میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو ان سے ملاقات کروانا بھی شامل ہے۔

کیس کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے متعلقہ محکموں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میاں ارشد جان کا کہنا تھا کہ ملک کی 45 جیلوں میں سے صرف 5 یا 6 ہی خیبر پختونخوا حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں جبکہ باقی تمام وفاق کے زیر انتظام ہیں، جس پر ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ خیبر پختونخوا کی جیل ہی حقیقت میں فعال ہیں۔

عدالت نے دونوں سینئر حکام کو معاملہ پر ایک دوسرے سے بحث کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ جلد سے جلد رپورٹ جمع کرائی جائے اور بتایا جائے کہ جن افراد کو قید کیا گیا ہے کیا ان کا ٹرائل ہوا ہے یا نہیں؟

خیال رہے کہ لاپتہ افراد کو ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن (اے اے سی پی آر) 2011 برائے دہشت گردی سے جڑے جرائم میں منسلک ہونے میں حراست میں لیا گیا تھا، جس کا نفاذ 27 جون 2011 کو کیا گیا تھا۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ جو لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ ساتھ اپنے لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کی رہائی کے لیے جدو جہد کر رہی ہیں، نے عدالت کو بتایا کہ وہ اب تک پشاور کے 11 حکام سے مل چکی ہیں جن کے زیر انتظام یہ جیلیں چل رہی ہیں لیکن کوئی بھی ملاقات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔

خیبر پختون خوا حکومت نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک ملاقات کا انتظام کیا جا رہا ہے تاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انکوائری ایکٹ 1956 کے مطابق دوسرے راستے موجود ہیں جن میں 1 ہزار 4 سو 48 کیسز سامنے بھی آئے تھے جن میں سے خیبر پختون خوا سے متعلق 800 کیسز کو خارج کردیا گیا جب کہ 748 کیسز اب بھی زیر التوا ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ان کیسز کو بھی کمیشن میں منتقل کردیا جانا چاہیے۔

خیبر پختون خوا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بین الاقوامی دہشت گردی اور پاکستان کی جغرافیائی مقام نے اسے دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے آمنہ جنجوعہ کو ہدایت جاری کیں کہ ان کی پٹیشن کی جلد سماعت کے لیے درخواست جمع کرائیں۔

خیال رہے کے آمنہ جنجوعہ کی چار صفحات پر مشتمل پٹیشن میں عدالت سے گزارش کی گئی تھی کہ جو حکام لاپتہ افراد کے کیس میں ملوث ہیں انہیں طلب کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کام میں ملوث کمیشن کو بھی جیلوں کا دورہ کرنا چاہیے اور جیلوں میں ہونے والی تشویشناک حالت کے حقائق پر سے پردہ اٹھانا چاہیے۔

آمنہ جنجوعہ نے لکھا کہ انہیں مختلف جیلوں میں لاپتہ افراد کی مبینہ اموات کے کئی کیسز کا پتہ چلا ہے جبکہ کثیر تعداد میں لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ اپنے عزیز سے ملاقات کی کوشش کے باوجود نہیں مل پائے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری