افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک پر دہشت گرد حملوں کا خدشہ


افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک پر دہشت گرد حملوں کا خدشہ

تاجکستان میں روس کے سفیر نے شمالی افغانستان می دہشتگردوں گروہوں کے اثر و رسوخ کے پیش نظر وسطی ایشیائی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ممالک کو دہشت گرد گروہوں کے ممکنہ حملوں سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

خبر رساں ادارےتسنیم کے مطابق اجتماعی سیکورٹی معاہدہ کی تنظیم کے رکن ممالک نے تاجکستان میں مشترکہ فوجی مشقوں کو اپنی سرحدوں پر دہشت گردی کے ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے منعقد کیا۔

تاجکستان میں روس کے سفیر ایگور فرولوف نے تنظیم کی مشترکہ فوجی مشقوں کے دورے کے وقت افغانستان سے وسطی ایشیائی ممالک پر دہشتگرد گروہوں کے ممکنہ حملوں سے خبردار کیا۔

روسی سفیر نے واضح کیا کہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورتحال خراب تر ہو رہی ہے اور اس ملک میں جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وسطی ایشیا کے ممالک دہشت گرد  گروہوں کے کسی بھی ممکنہ خطرے کا سامنا کرنے کےلیے تیار رہیں تاکہ حملوں کی صورت دہشتگردوں کو جواب دیا جا سکے۔

فرولوف نے کہا کہ "ہمیں افغانستان سے ممکنہ خطرات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، اگرچہ اس وقت کوئی براہ راست خطرہ نہیں ہے، لیکن یہ مستقبل میں ہو سکتا ہے۔"

روسی حکام نے کہا کہ شمالی افغانستان میں تقریبا چار ہزار مسلح عسکریت پسند ہیں جو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی کےلیےخطرہ  ہیں۔

یہ ایسی صورت میں ہے کہ روسی حکام نے دہشت گرد گروہوں خاص طور پر داعش کے شمالی افغانستان سے وسطی ایشیا کے ممالک پر ممکنہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

امریکہ پر الزام ہے کہ وہ شمالی افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو استعمال کرکے وسطی ایشیا کے ممالک اور روسی سرحدوں کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا  ہے۔

قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ 2384 کلومیٹر جبکہ چین کے صوبہ سنکیانگ کے ساتھ  تقریبا 90 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے۔

یاد رہے کہ جکستان کی افغان صوبہ بلخ، کندوز، تخار اور بدخشان صوبوں، ترکمانستان کی جوزجان، فاریاب، بادغیس، ہرات، اور ازبکستان کی بھی صوبہ بلخ کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے۔

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری