جنرل جعفری ـ جنرل باجوہ ملاقات


جنرل جعفری ـ جنرل باجوہ ملاقات

پاکستانی افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ جمہوری اسلامی ایران خطے کے دو بڑے مسلم ممالک کے تعاون کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا جس سے دشمنوں کے اقدامات کی نفی ہوئی اور دشمنوں کے لئے خوش کن بعض تشہیری مہمات بھی باطل ہوئیں۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی جنرل محمد علی جعفری سمیت اسلامی جمہوریہ کے عسکری اور سیاسی راہنماؤں سے جنرل باجوہ کی ملاقاتیں ایسے وقت میں انجام پائیں جب سعودی خاندان سابق پاکستانی آرمی چیف (ریٹا‏ئرڈ) جنرل راحیل شریف کی خدمات حاصل کرنے کے بموجب، یہ سمجھنے اور جتانے لگا تھا کہ گویا پاکستانی افواج اب اس کی مٹھی میں ہیں اور اس خاندان کے نامعقول اور دشمن پسند آرزؤوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں اور اس دورے نے ان سعودی سپنوں کو بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔  

جنرل جعفری نے جنرل باجوہ کو ایک نہایت اہم تجویز دی جو بروقت بھی تھی اور بجا بھی؛ اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران بسیج مستضعفین اور اسلامی مزاحمت تحریک کے اپنے 40 سالہ تجربات کو پاکستان منتقل کرنے کے لئے تیار ہے کیونکہ پاکستان کو بھی دشمنوں کی جانب سے خطے کے دوسرے ممالک جیسے مسائل کا سامنا ہے؛ اور یہ عوامی فورسز پاکستانی افواج اور سیکورٹی فورسز کے دوش بدوش کردار ادا کریں گی؛ اور یوں جنرل جعفری نے پاکستان میں رائج اس غلط فہمی کو دور کردیا کہ اسلامی مزاحمتی تحریک کے دائرہ کار میں فعال کردار ادا کرنے والے مدافعین حرم پاکستان میں بدامنی کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی پاکستان میں وہابیت اور آل سعود سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور سعودی سفارتخانے کے تنخواہ خور قلم فروش لکھاریوں کی فتنہ انگیزیوں کے لئے ایک دستاویز کا کردار ادا کررہی تھی۔ اور چونکہ زینبیون کے دفاع کے سلسلے میں کوئی ابلاغی کام نہیں ہو رہا تھا اور بعض اپنے بھی اس تشہیری مہم سے متاثر ہوکر انفعالیت اور خاموشی سے دوچار ہوگئے تھے یا پھر دبے لفظوں میں ان کے ساتھ ہم آواز ہوچکے تھے۔ حالانکہ پاکستان کے وہابیوں اور سعودی تنخواہ خوروں نے تمام کالعدم (مگر فعال) دہشت گرد ٹولوں کے ساتھ مل کر نام نہاد "دفاع حرمین" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے اور وہ ہر روز رجزخوانیاں کرکے یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا شیعیان آل محمد(ص) حرمین شریفین کے دشمن ہیں اور یہودی ریاست کی گود میں بیٹھے سعودی خادمین حرمین شریفین ہیں۔  

بدقسمتی سے ہمارا میڈیا بھی اس بے بنیاد تشہیری مہم اور شیطان تہمتوں کو مسترد کرنے اور مدافعین حرم ـ یعنی حرمین شریفین کے حقیقی مدافعین ـ کا دفاع کرنے کے بجائے انہوں نے حرم کے مظلوم اور بہادر مدافعین کی مخالفت کی اور مذکورہ شدت پسند تنظیم کی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ لیکن ایرانی جنرل محمد علی جعفری نے ایک ہی لمحے میں 100 سالہ مسافت طے کرتے ہوئے خالصانہ اور نہایت سچی تجویز پیش کرکے پاکستانی قوم سمیت اقوام عالم کو یہ پیغام بھیجا کہ اسلامی مزاحمت تحریک اور رضاکار عوامی فورسز نہ صرف حرمین شریفین، اسلامی ممالک اور مسلم اقوام کے دشمن نہیں بلکہ ان کے محافظ اور مدافع ہیں اور وقت پڑنے پر ان کے تحفظ کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہیں اور پاکستانی عوام کو درپیش مسائل اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستانی افواج کے دوش بدوش جانفشانہ کردار ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت آمادہ ہیں۔  

جنرل باجوہ نے جنرل جعفری کی تجویز کا خیرمقدم کیا جو کہ بظاہر پاکستان کی طرف سے اس تجویز کی مکمل پذیرائی کے مترادف نہیں ہے اور اس تجویز کا فیصلہ کن جواب پاکستان کی طرف سے غور و فکر کے بعد سامنے آئے گا، لیکن بےشک یہ اسلامی مزاحمتی تحریک اور بطور خاص مدافعین حرم کے قانونی جواز کی طرف ایک بڑا قدم ہے اور بلاشبہ دو ملکوں کے عسکری اداروں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں ـ جو کہ اس قسم کے دوروں کا ناقابل اجتناب لوازمات میں سے ہیںـ دو طرفہ تعاون پر دور رس اثرات مرتب کریں گی اور داعش سمیت پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی آخری شکست پر منتج ہونگی اور داعش جو مغربی ایشیا میں اپنی آخری شکستوں کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے جنوبی ایشیا اور پاکستان پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اور ابھی سے اس نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی پہاڑوں کے درمیان اپنے خفیہ اڈے قائم کرلئے ہیں، مزید کوئی پناہ تلاش نہیں کرسکے گی اور اسے موت یا پھر  قید و بند کی زندگی اور عدالتی سزاوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری