بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر کو تسلیم کرنا امن مذاکرات کی تباہی


بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر کو تسلیم کرنا امن مذاکرات کی تباہی

فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا امن مذاکرات کے خاتمے کا سبب ہوگا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینه نے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے خطرات اور نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی حکومت اگلے چند دنوں کے دوران تل ابیب سے اپنے سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کریگی یا اس فیصلے کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کریگی۔ 

فلسطین میڈیا سیل کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے فرانس پریس سے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی حکومت کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امن مذاکرات کے خاتمہ ہو۔

نبیل ابوردینہ نے کہا کہ قدس کو صہیونی دارالحکومت بنانا یا اس مقدس شہر میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنا امن مذاکرات کے لئے بہت بڑا خطرہ ہوگا، اور یہ مقبوضہ فلسطین میں بدامنی کا سبب بھی بنےگا۔

ابو ردینہ نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی صورتحال میں فلسطینی ریاست کی دارالحکومت مشرق قدس ہی ہونا چاہئے۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہونے کی صورت میں خطے بلکہ پوری دنیا کو بدامنی اور عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑیگا۔

فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ  بین الاقوامی قوانین اور فلسطین کو رسمی طور پر تسلیم کرنے پر مبنی قرارداد کے مطابق صیہونیوں کی آبادکاریوں کو غیرقانونی قرار دینے سے خطے کے مسائل کو حل کرنے میں اور امریکہ کے ساتھ عرب ریاستوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔

نبیل ابو رادینہ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ محمود عباس دونوں ریاستوں کے مسائل کے حل کے لئے امن و آشتی کے راستے پر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک امریکی سرکاری اہلکار نے بیان دیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ بدھ کو مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔

بعض حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ قدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر اعلان کرنے جا رہے ہیں تو اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امریکی سفارت خانہ بھی قدس منتقل ہو جائے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے یہ اقدامات اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن لانے کی کوششوں کو سبوتاژ کریں گے۔

امریکہ کے پاس مقبوضہ بیت المقدس میں سفارت خانے کے لئے عمارت نہیں ہے، تل ابیب سے سفارتخانہ منتقل کرنے کیلئے امریکہ کو مقبوضہ بیت المقدس میں عمارت بنانی پڑیگی جس پر بہت زیادہ وقت وقت لگے گا۔

ٹرمپ نے گزشتہ سال انتخاباتی کمپین کے دوران امریکا کے سفارت خانے کو قدس منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم انہوں نے گزشتہ جون میں اس اقدام کو مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنے کے سبب موخر کردیا تھا۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری