نجفی رپورٹ غیر موثر ہے جو شہادت کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی، رانا ثنا اللہ


نجفی رپورٹ غیر موثر ہے جو شہادت کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی، رانا ثنا اللہ

وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ غیر موثر ہے جسے قانوناً شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ڈھائی سال تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ پر محض پروپیگنڈا کیا گیا، راولپنڈی میں بیٹھا شیطان کچھ کا کچھ کہتا رہا کہ یہ ہوجائے گا یا وہ ہوجائے گا لیکن کچھ نہ ہوا، پنجاب حکومت کی جانب سے کمیشن کی انکوائری رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا گیا لیکن جو عدالت کا حکم آیا ہے اس کا احترام کرتے ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس رپورٹ میں کسی حکومتی شخصیت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، طاہر القادری فرماتے ہیں کہ سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے یہ بتایا جائے کہ کارکنوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کے لیے کس نے کہا؟ وہ کون تھا جو انہیں اکساتا رہا؟ پوری رات شہادت کا کہتا رہا؟ ایسی صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا ذکر اس رپورٹ میں کیوں نہیں ہے؟

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں موقع پر موجود کسی پولیس اہلکار کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا، عوامی تحریک کی جانب سے کوئی شہادت جمع نہیں کرائی گئی، اس رپورٹ میں جن شواہد پر انحصار کیا گیا وہ شواہد درست نہیں اسی لیے وزیراعلیٰ سے کہا تھا کہ اگر رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدگیاں پیدا کرے گا، اس رپورٹ کی اشاعت کو لارجر بینچ کے فیصلے سے منسلک کیا جائے۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں کوئی ایک شق نہیں ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ جب وزیر اعلیٰ کے نوٹس میں آیا تو انہوں نے یہ حکم دیا کہ مظاہرین سے نمٹا جائے، تصادم کی راہ خود عوامی تحریک کے کارکنوں نے پیدا کی، اس کمیشن میں پیش کردہ شواہد یک طرفہ ہیں، مختلف خفیہ اداروں کی رپورٹس میں دونوں اطراف سے فائرنگ کا ذکر ہے تاہم خفیہ اداروں کی وہ رپورٹس کمیشن میں شامل نہیں کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ نقائص سے بھرپور ہے،  قانون کی نظر میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ غیر موثر ہے اس لیے یہ رپورٹ شہادت کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی اس رپورٹ کی اشاعت سے مقدمے کے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،ہائی کورٹ کا آج حکم آچکا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ رپورٹ پبلک کردی جائے چنانچہ آج اس رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر سنارہا ہوں،یہ رپورٹ آج پبلک ہوچکی ہے، لارجر بینچ کا فیصلہ ہے کہ رپورٹ میں معلومات ہے جو عوام تک پہنچنی چاہیے تاہم بینچ نے قرار دیا ہے کہ اس رپورٹ کو شواہد کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ رپورٹ 132 صفحات پر مشتمل ہے جو محکمہ تعلقات عامہ کی ویب سائٹ پر جاری کردی گئی ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری