متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا، اعلان 13 دسمبر کو ہوگا


متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا، اعلان 13 دسمبر کو ہوگا

جے یو پی (نورانی) کو اپنے سے الگ ہونیوالے سربراہوں کو راضی کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی سے کہا گیا ہے کہ وہ مجلس وحدت مسلمین کو اپنی جماعت میں ضم کریں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ایم ایم اے کی بحالی کا باقاعدہ اعلان 13 دسمبر کو کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق دینی جماعتوں کے اتحاد کی بحالی کیلئے اجلاس کراچی میں طلب کر لیا گیا ہے۔ اجلاس شاہ اویس نورانی کی رہائشگاہ پر ہوگا۔ جس میں سپریم کونسل کی تشکیل دی جائے گی۔

سپریم کونسل اجلاس میں اتحاد کے سربراہ اور سیکرٹری جنرل کا انتخاب کرے گی۔ ایم ایم اے کے سربراہ کیلئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن میں سے کسی ایک کا نام فائنل کیا جائے گا۔ ایم ایم اے کی بحالی کے بعد طے کیا جائے گا کہ جماعت اسلامی کے پی کے کی حکومت سے باہر نکلے گی یا نہیں۔

مرکزی جمعیت اہلحدیث کے بھی (ن) لیگ کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ اتحاد کرے گا۔ اجلاس میں ایم ایم اے میں 6 جماعتوں کو ہی شامل رکھا جائے گا۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی (فضل الرحمن)، مرکزی جمعیت اہلحدیث، اسلامی تحریک، جمعیت علمائے پاکستان اور جے یو آئی (سمیع الحق) شامل ہوں گی۔ دینی جماعتوں کے قائدین نے جے یو پی اور اسلامی تحریک کو اپنے الگ ہونیوالے دھڑوں کو متحد کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔

ذرائع کے مطابق جے یو پی (نورانی) کو اپنے سے الگ ہونیوالے سربراہوں کو راضی کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جبکہ اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی سے کہا گیا ہے کہ وہ مجلس وحدت مسلمین کو اپنی جماعت میں ضم کریں۔ مبصرین کے مطابق یہ دونوں ٹاسک مشکل دکھائی دے رہے ہیں۔

اسلامی تحریک کے حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کا موقف ہے کہ وہ مذہبی امور دیکھتی ہے جبکہ ایم ڈبلیو ایم ملت جعفریہ کی سیاسی جماعت ہے، اسلامی تحریک کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتی۔ اسی طرح جے یو پی کے تمام دھڑوں کے سربراہ بھی خود کو اپنے اپنے طور پر "قائدِ کُل" سمجھتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی ہتھیار ڈال کر کسی ایک کو اپنا قائد تسلیم کرنے کیلئے راضی نہیں ہوگا۔

مبصرین کے مطابق ایم ایم اے کی بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دے رہی۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث حکمران جماعت کی انتہائی قریبی اتحادی ہے۔ اگر علامہ ساجد میر حکومت سے اتحاد چھوڑتے ہیں تو انہیں وزارتوں اور سینیٹ کی نشستوں سےبھی ہاتھ دھونا پڑیں گے جو ان کیلئے گھاٹے کا سودا ہے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری