پارلیمنٹ کسی بھی آمر کو راستہ فراہم نہیں کرے گا، رضا ربانی


پارلیمنٹ کسی بھی آمر کو راستہ فراہم نہیں کرے گا، رضا ربانی

سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے واضح کیا ہے کہ پارلیمان ایک آمر کو اقتدار میں آنے کا کوئی راستہ فراہم نہیں کرے گا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق یہ ریمارکس انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر شاہی سید کے بیان کے بعد دیئے، جس میں انہوں نے حلقہ بندیوں کے قانون کی منظوری میں غیر متوقع تاخیر پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل سے انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں۔

شاہی سید نے کہا تھا کہ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پارلیمان ہی ہے جس نے آمریت اور مارشل لاء کو راستہ فراہم کیا تھا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں پہلے سے منظور شدہ بل سینیٹ سے منظور ہونے میں ناکام رہا، ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مطلوبہ تعداد میں قانون سازوں کو ایوان میں بلائے اور اس بل کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرائے۔

اے این پی کے رہنماء نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حیرانگی ہے کہ قومی اسمبلی میں بل کی منظوری کے بعد ایسا کیا غلط ہوگیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) بل کی منظوری میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ معلوم ہوا ہے کہ حکومت بل کی منظوری کے لیے کچھ سیاست دانوں پر اہم مقدمات کی واپسی کے لیے بلیک میل ہو رہی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بل کی منظوری میں تاخیر پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ملت بھگت کا نتیجہ ہے، یہ دونوں جماعتیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی۔

ان الزامات کے بعد پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر تاج حیدر نے شاہی سید کو جواب دینا چاہا لیکن چیئرمین سینیٹ نے انہیں اس سے روک دیا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ معاملہ پیر کو مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں زیر غور لایا گیا تھا اور لیڈر آف دی ہاؤس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کی جانب سے آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے کوششیں کی گئی تھی۔

رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ماضی میں پارلیمان نے مارشل لاء کے خلاف بے مثال کردار ادا کیا تھا، سینیٹ نے کبھی بھی ایک آمر کو راستہ نہیں دیا اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ایسا ہوگا۔

سینیٹ میں لیڈر آف دی ہاؤس راجا ظفر الحق نے ارکان کو بتایا کہ یہ معاملہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے سامنے اٹھایا گیا تھا، جس پر انہوں نے ترکی جانے سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے گفتگو کرنے کا کہا تھا۔

سینیٹ میں جاری اس بحث کے بعد سینیٹر شیری رحمٰن نے بتایا کہ لندن کی بین الاقوامی ثالثی عدالت نے ایک عبوری ایوارڈ جاری کیا ہے جس کے مطابق پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ نائن آئی پی پیز کی مد میں 14 ارب روپے فوری ادا کرے۔

واضح رہے کہ رواں سال 13 فروری کو سینیٹ کے چیئرمین نے ایوان بالا کے اختیارات بڑھانے کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی تھی اور اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ایک شق ہے جس کے مطابق ہر قرضے کی منظوری پارلیمان کی جانب سے دی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خیال تھا کہ تمام معاہدے پارلیمان کی منظوری سے ہونے چاہیے لیکن وہ ایک حد تک محدود تھے کیونکہ اس معاملے میں دوسرا ایوان بھی شامل تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط بھی لکھا تھا کہ وہ ثالثی کے معاملات کو دیکھنے کے لیے آئین کے تحت ایک پارلیمانی کمیٹی بنائیں اور اس پارلیمانی پینل میں ایوان کے قانونی کمیٹیاں شامل ہونی چاہیے۔

اس سے قبل شیری رحمٰن کی جانب سے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ حیران اور پریشان کن امر تھا کہ لندن کی عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کو آئی پی پیز کے لیے 14 ارب روپے ادا کرنے کو کہا، جس میں بقایا بلز اور سود شامل ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ خودمختار پاور پروڈیوسر کی غیر ادا شدا رقم اضافے کے ساتھ 205 ارب روپے ہوگئی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اس سال کے آغاز میں وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ آئی پی پیز کی مد میں حکومت کو 161 ارب روپے ادا کرنے ہیں جس میں 69 ارب روپے قانونی چارہ جوئی کے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کی غفلت کے باعث یہ جرمانہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت نے عالمی ثالثی کیس کو چھپانے کی کوشش کی، ان کا کہنا تھا کہ عالمی ثالثی مقدمات میں پاکستان کے پارلیمان کی جانب سے غیر موجودگی رہی، جس کی وجہ سے ہم بہت سے بین الاقوامی مقدمات ہار گئے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ جب ایسے اہم معاملات خفیہ رکھے جائیں گے تو پارلیمان کا نقطہ نظر کیا ہوگا۔

اس موقع پر وزیر توانائی اویس لغاری نے اس معاملے کو سنجیدگی سے بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آئی پی پیز کی جانب سے جن مقامات کا استحصال کیا گیا وہ انہیں ماضی میں ایک معاہدے کے تحت دی گئی تھی، ماضی میں پاور پلانٹس بغیر اشتہار دیے قائم کیے گئے جبکہ حکومت کی جانب سے اس معاملے کو اٹارنی جنرل اس ثالثی کے معاملے کو دیکھ رہے تھے اور حکومت کے مفاد میں جو کچھ بہتر تھا وہ سب کیا گیا تھا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری