امریکی ـ سعودی ملی بھگت سے قدس شریف پر صہیونی جارحیت


امریکی ـ سعودی ملی بھگت سے قدس شریف پر صہیونی جارحیت

محمد بن سلمان آل سعود نے محمود عباس کو 100 ملین ڈالر کی رشوت دی اور یہودی ریاست کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرتے ہوئے، کہا: "قدس کو بھول جاؤ۔"

خبر رساں ادارہ تسنیم: امریکہ نے آل سعود کی شہ پر قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا۔

اسرائیلیوں نے محمد بن سلمان کو اسرائیل کا دورہ کرنے کی دعوت دی؛

سعودی ولیعہد نے ٹرمپ کو بھی دو کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا قدس کو ہڑپ کرنے پر۔

اسرائیلی افواج کے ایک سینئر کمانڈر کا مضمون سعودی روزناموں میں شائع ہؤا۔

لہذا

ٹرمپ + بن سلمان + نیتن یاہو = امریکی صدر نے گراوٹ کی حد کرکے صہیونیوں کے ترجمان کا کردار ادا کیا اور قدس کو صہیونی / یہودی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا۔

اب سعودی ـ یہودی اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ دونوں سفارتی تعلقات کے قیام کی طرف سے تیزرفتاری سے بڑھ رہے ہیں؛

تو جن یہودیوں نے اس سے پہلے قبلہ اول پر قبضہ کرلیا ہے وہ اس سے پہلے سعودیوں کے خفیہ دوست تھے اور اب ان کی دوستی اعلانیہ ہوچکی ہے۔

پہلے ہم کہہ سکتے تھے کہ قبلہ اول پر یہودی قبضہ ہے اور موجودہ قبلے پر سعودی قبضہ ہے لیکن اب کیا کہیں گے: قبلتین پر یہودی ـ سعودی قبضہ ہے؟ یعنی:

جو یہودی قبلہ اول پر قبضہ کرچکے ہیں وہ اب مسجد الحرام اور کعبہ شریف کے قریب سے قریب تر ہورہے ہیں یعنی

ٹرمپ + آل سعود + یہود = قبلۂ مسلمین کو خطرہ

مذکورہ بالا سطور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ریاست کو ایک قدم بڑھانا تھا جو وہ خود نہیں بڑھا سکتی تھی۔ یہودی ـ سعودی اتحاد نے امریکی صدر کو آگے بڑھایا اور اس سے کرادیا وہ جو وہ خود نہیں کرسکتے تھے؛ یعنی یہودی سعودی مفادات ایک ہیں اور امریکہ ان مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے یہ ہے بڑی طاقت کا حال اور وہ ہے دو کٹھ پتلیوں کا کردار جو اب امریکہ کے مالک بن چکے ہیں اور امریکی صدر کو امریکہ کے زوال کی طرف گامزن کرنے پر مجبور کرچکے ہیں۔

مسلم ممالک کا کردار

مسلم ممالک کا کردار کچھ نہیں، دفاع حرمین والے منہ چھپا کر دبک چکے ہیں کیونکہ ان کے مالک یہودی ریاست کے مفادات کے لئے دوڑ دھوپ کررہے ہیں اور یہودیوں کو حرمین تک رسائی دے رہے ہیں؛ ممالک کے صدور و بادشاہ خاموش ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو۔

میدان میں جو کھڑے ہیں وہ ہیں جنہیں آج کے نام نہاد دفاع حرمین والے اور ان کے اسلاف یہودیت سے جوڑ رہے تھے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی نے فلسطینی مزاحمت کے کمانڈروں سے فون کرکے مکمل مدد و حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، اور شیعیان حیدر کرار سمیت دنیا بھر کے  اہلسنت مظاہرے کررہے ہیں اور قدس کے دفاع کو امت کا فریضہ قرار دے رہے ہیں، گویا کہ یہ فریضہ صرف شیعہ حکومت کا ہی ہیں؛ اگر ایسا نہیں ہے تو میدان میں کیوں نہیں آتے صرف اپنے آپ کو مسلمان قرار دے کر دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دینے والے؟

قرآن نے کہا:  لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَكُواْ؛ یقیناً آپ یہودیوں اور مشرکین کو ایمان والوں کا شدید ترین دشمن پائیں گے۔

سعودی یہودیوں کے لئے سرمایہ کررہے ہیں؛ سابق صہیونی وزیر دفاع کہتا ہے: عادل الجبیر عربی میں وہی بولتا ہے جو ہم عبری میں بولتے ہیں!!!

صہیونی وزراء سعودی ولیعہد کو تل ابیب کا دورہ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، دوستیاں عیاں ہوچکی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ معلوم نہیں ہورہا عربی والوں کو یہودی کہیں اور عبری والوں کو سعودی یا پھر عبری والوں کو یہودی اور عربی والوں کو سعودی، گھل مل گئے ہیں جبکہ قرآن میں ارشاد خداوندی ہےکہ اے رسول(ص) اور اے مسلمانو! تمہارا شدید ترین اور بدترین دشمن یا تو یہود ہے یا پھر مشرکین۔

تو کیا کسی مسلمان کے ذہن میں یہ سوال نہیں ابھرتا کہ کیا سعودی یہودی ہوچکے ہیں یا پھر یہودی مسلمان ہوچکے ہیں کہ ان دو کے درمیان پیار و محبت کی پینگیں مسلسل بڑھ رہی ہیں؟

کیا مسلمانوں میں اس بات کی تشخیص کی صلاحیت نہیں رہی کہ یہودی بدترین دشمن تھے، بدترین دشمن ہیں اور بدترین دشمن ہونگے اور وہ کبھی بھی مسلمان نہیں ہوئے۔۔۔۔ اور اگر وہ یہ تشخیص دے سکتے ہیں تو کیا اب بھی سعودیوں کو خادم الحرمین کہنا اور ان کی حمایت میں دیوانگی کی حد تک آگے بڑھنا جائز ہے؟

کیا اب وہ وقت نہیں آیا کہ قبلہ اول کے دفاع کے لئے میدان میں کھڑے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار لئے جہاد و دفاع کے لئے تیار مجاہدین کا ساتھ دیں اور اتحاد بین المسلمین کے لئے ـ جو قرآن میں ہر مسلمان کے لئے فرض قرار دیا گیا ہے ـ آگے بڑھیں؟ کیا قرآن میں یہودیوں کے ساتھ اتحاد کا حکم آیا ہے کہ سعودی ان کے ساتھ متحد ہورہے ہیں اور اسلام کے دعویدار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری