نیشنل ہائی وے اتھاڑی کے خلاف 3 ہزار مقدمات


نیشنل ہائی وے اتھاڑی کے خلاف 3 ہزار مقدمات

وفاق کے زیر انتظام نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کے خلاف 3 ہزار سے زائد مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق مختلف نوعیت کے کیسز میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے جوڑے منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن، وسیع پیمانے پر غیر قانونی تقرریاں اور معاہدے کے معاملات شامل ہیں۔

ڈان کو موصول دستاویزات کے مطابق موجودہ دورحکومت میں این ایچ اے میں خلاف ضابطہ بھرتیاں اور قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

این ایچ اے کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں عدالتی کیسز کے باوجود 150 سے زائد مشیر (کنسلٹنٹ) ماہانہ تنخواہ، مراحات اورالاؤنس کی مد میں اربوں روپے وصول کررہے ہیں۔

این ایچ اے کو سی پیک سےمنسوب منصوبوں، تھاکوٹ تا حولیاں، ڈی آئی کے، ای 35 حولیاں ایبٹ آباد سمیت اسلام آباد پشاور موٹر ہائی وے (ایم ون)، اسلام لاہور موٹر وے (ایم 2)، فیصل آباد خانیوال (ایم 4) اور کراچی حیدرآباد موٹر (ایم 9) پر عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے۔

ذرائع کے مطابق 150میگا کیسز کو ڈسپیوز ریزولیشن سیل (ڈی آر سی) کے ذریعے نمٹایا گیا۔

واضح رہے کہ ڈی آر سی این ایچ اے کا ذیلی محکمہ ہے جس کے سربراہ کرنل ریٹائرڈ محمد عظیم ہیں۔

محمد عظم 2003 تک این ایچ اے میں فرائض انجام دیتے رہے پھر 7 جون 2011 کو انہیں ایک سال کے لیے دوبارہ ادارے میں تعینات کیا گیا اور حال ہی میں انہیں دوبارہ 3 ماہ کی توسیع دی گئی۔

ڈائریکٹر جنرل آڈیٹ (ورکس) کی جانب سے این ایچ اے میں جاری بڑے پیمانے پر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں پر 389 آڈیٹ پیرا تیار کیے ہیں۔

خیال رہے کہ آج سے پہلے کسی ادارے کی بدعنوانیوں کے خلاف اتنا بڑا آڈیٹ پیرا تیار نہیں ہوا۔

آڈیٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایچ اے حکام نے زائد قیمت پر ٹھیکے تفویض کیے جس سے قومی خزانے کو ایک کھرب 66 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔

پبلک پریکیورمنٹ ریگیولیٹر اتھاڑی (پی پی آر اے) کے قواعد و ضابط کی خلاف ورزی کے باعث مبینہ ٹھیکوں سے 1 کھرب 48 ارب کی کرپشن ہوئی۔

مالیاتی حدود سے بڑھ کر کام تفویض کرنے سے 39 ارب روپے جبکہ غیر ذمہ دارانہ بولی کی مد میں 17 ارب کا نقصان پہنچا۔

این ایچ اے کی جانب سے دیگر مختلف ہیڈز کی مد میں تقریباً 49 ارب کھرب کا جھٹکا لگا۔

متنازع بھرتیاں

دستاویزات کے مطابق این ایچ اے میں مشیر(کنسلٹنٹ) کے عہدے پر متعدد ایسے لوگوں کو تعینات کیا جو اس کے اہل نہیں تھے۔

کرنل (ر) سلمان راشد این ایچ اے کے شعبہ مانیٹرنگ اینڈ انسٹریکشن کی نگرانی کررہے ہیں، کرنل (ر) وقار روزمرہ اراکینِ فنانس کی معاونت پر تعینات ہیں اور کرنل (ر) مصدق سی پیک سیکیورٹی کے امور سنبھالتے ہیں۔

این ایچ اے میں 60 ملازمین ڈیپوٹیشن پر کام کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ تین سال کی مدت سے پہلے کسی دوسرے ادارے میں خدمات انجام نہیں دے سکے گا۔ اہم عہدوں پر ڈیپوٹیشن پر تعینات چند شخصیات میں نوید اقبال (رکن سینٹرل زون، لاہور)، عبداللہ جان (رکن جنوبی زون، کراچی) اور ساجد احمد (جی ایم اسٹیلشمنٹ) شامل ہیں۔

موٹر وے (ایم ون) پر بدعنوانی

موصول دستاویزات کے مطابق اسلام آباد تا پشاور موٹر وے (ایم ون) کی تعمیر کے سلسلے میں این ایچ اے کو تاحال ترکی کی کمپنی بینڈر کنسٹرکشن (بی سی آئی) سے ثالثی کا سامنا ہے۔

ترکش کمپنی نے ایم ون منصوبے کے لیے اپنی مشینری درآمد کیں تھیں، منصوبے کی تکمیل کے بعد ترکش کمپنی کی مشینری وغیرہ کو فروخت کرنے کی غرض سے ٹینڈر کے بجائے جعفر برادرز لیمٹڈ (جے بی ایل) کو تخمینے کے لیے مقرر کیا گیا۔

جس کے نتیجے میں بینک کی زر ضمانت 4 ارب سے 5 اور بعد ازاں 9 ارب تک جاپہنچی تھی۔

بارودی مواد کی پوشیدگی کا معاملہ

ترکش کمپنی کا وہ بارودی مواد جو برہان کیمپ کے 80 کمروں میں مکمل بھرا ہوا تھا، این ایچ اے کے پاس اس باروی مواد کا کوئی ریکارڈ نہیں۔

کہا جارہا ہے کہ بارودی مواد کے معاملے کو چھپانے کے لیے ارکان فنانس کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ معاملہ زیر التو ہی رہے۔

خلاف ضابطہ ٹھکیوں کی تفویض

این ایچ اے نے زیڈ کے بی نامی ایک کمپنی کو خلا ف ضابطہ ٹھیکوں سے نوازا۔

سابق این ایچ اے چیئرمین تارڑ نے بتایا کہ ٹھیکے صرف ان کمپنیوں کو ملے جس نے بولی لگائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کسی کمپنی کے فنانس کے معاملات کو خاطر میں نہیں لاتی کیوں کہ عمومی طورپر چھوٹی کمپنیاں بڑی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرتی ہیں۔

این ایچ اے کے ترجمان نے اقرار کیا کہ اتھارٹی کو 3 ہزار سے زائد کیسز کا سامنا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ این ایچ اے مشیروں کی تعیناتی کے لیے پی پی آر اے کے رولز 2010 پر عملدآمد کرتی ہے اور کوئی کانٹریکٹ دوسالہ مدت سے زیادہ نہیں ہوتی۔

این ایچ اے دستاویزات کے مطابق این ایچ اے کے خلاف چائنا انٹرنشینل واٹر اینڈ الیکڑیک کمپنی نے 2 ارب روپے سے زائد، کمپنی بینا پوری نے 30 ارب روپے، ڈییو کے 82 کروڑروپے ، بی سی آئی کے 52 کھرب روپے، کشانی بلڈرز کے 84 کروڑ ، ایوب برادرز کے 40 کروڑ، انٹر کنسٹرکٹ نے 30 کروڑ، اے ایم ایسوسی ایٹ 19 کروڑ، جے وی نے 20 کروڑ کے کلیمز دائر کیے ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری