آل سعود کے مضحکہ خیز اور تضاد بیانات؛ اسرائیل کیساتھ رسمی روابط نہیں لیکن روڈ میپ موجود ہے


آل سعود کے مضحکہ خیز اور تضاد بیانات؛ اسرائیل کیساتھ رسمی روابط نہیں لیکن روڈ میپ موجود ہے

سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کیساتھ رسمی تعلقات نہیں ہیں لیکن تعلقات برقرار کرنے کے لئے ریاض کے پاس ایسا روڈ میپ موجود ہے کہ جسے عرب امن منصوبہ کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جائزہ لینا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک مضحکہ خیز البتہ حیرت انگیز بیان میں کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان رسمی تعلقات نہیں ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا ہےکہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کے لئے ریاض کے پاس ایسا روڈ میپ ہے کہ جسے عرب امن منصوبہ کہا جاتا ہے اور اس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جائزہ لینا ہے۔

یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے کہ تقریبا ایک مہینہ قبل صیہونی حکومت کے ایک وزیر نے اعلان کیا تھا کہ ان کا ملک سعودی عرب کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے اور ایران کے تعلق سے ان دونوں ملکوں کی تشویش مشترک ہے، حکومت اسرائیل کبھی بھی سعودی عرب جیسے ملک یا کسی اور مسلم ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مخفی رکھنا نہیں چاہتی اور صرف ان ملکوں کی خواہشات کا احترام کرتی ہے- درحقیقت اسرائیل اور سعودی عرب، ایران کے مشترکہ دشمن ہیں اور ایک قدیم ضرب المثل کے مطابق ہمارے دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے۔

اس وقت ایرانوفوبیا کے ذریعے یہ دونوں ملک علاقے میں اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں- اگرچہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان کبھی بھی سفارتی تعلقات نہیں رہے ہیں تاہم ان دونوں کے درمیان کوئی ٹھوس مشکل بھی نہیں رہی ہے- ان دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں چنداں مخفی بھی نہیں رہی ہیں کیوں کہ اسرائیل کے وزیر توانائی " یووال اسٹائٹنٹز " وہ پہلے اسرائیل کے سرکاری عہدیدار ہیں کہ جنہوں نے سعودی خاندان اور بنیامین حکومت کے درمیان تعلقات کی تصدیق کی ہے- البتہ اس وقت بھی سعودی حکام، ایک ایسی حکومت کے ساتھ رابطے کے انکشاف سے، کہ جس نے عالم اسلام کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، خوف و وحشت میں مبتلا ہیں -

حال ہی میں صیہونی حکومت کے وزیرانٹیلی جنس یسرائیل کٹس نے اعلانیہ طور پر سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے درخواست کی ہے وہ اسرائیل کے وزیراعظم کو ریاض کا دورہ کرنے کی باضابطہ طور پر دعوت دیں۔ اسرائیل کے اس وزیر نے  تاکید کے ساتھ کہا کہ اسرائیل، تعلقات کو معمول پر لائے جانے کے مقابلے میں سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر عرب ملکوں کو اطلاعات و سیکورٹی سے متعلق شراکت کے منصوبے کی تجویز پیش کرسکتا ہے۔ اس وزیر نے یہ بھی کہا کہ بحران قطر کی بنا پر سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات تیزی سے بڑھے ہیں۔ واضح رہے کہ حالیہ چند ماہ کے دوران صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کی برقراری کا عمل تیز ہوا ہے اور سعودی عرب و اردن جیسے ممالک، اس سلسلے میں دیگر عرب ملکوں سے سبقت لے گئے ہیں۔

خلیج فارس انسٹی ٹیوٹ کے محقق "حسین ایبیش" اس بارے میں کہتے ہیں اسرائیل کے وزیر توانائی کی باتیں عالم عرب کے لئے حیرت کا باعث نہیں ہیں کیوں کہ سب کو ان تعلقات کے بارے میں معلوم ہے اور بہت سے مبصرین جانتے ہیں کہ یہ اسرائیل ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب نے گذشتہ برسوں کے دوران شام میں داخلی جنگ کے آغاز کے بعد سے بہت زیادہ اطلاعات کا تبادلہ کیا ہے۔ خاص طور پر عراق اور شام میں ایران کے قدرتمند ہونے کے بعد، ان دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ اطلاعات کا تبادلہ ہوا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت سعودیوں کے راز پنہاں رکھنے سے تھک چکی ہے اسی لئے اس غاصب حکومت کے جنرل " گادی ایزنکوٹ " نے آشکارہ طور پر اعلان کیا ہے کہ حکومت اسرائیل ، ایران سے مقابلے اور علاقے میں اس ملک کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب کی مدد کر رہی ہے۔ اور صیہونی وزیر اعظم بنیا مین نتنیاہو نے بھی بارہا اسی بات پر تاکید کی ہے۔ 

بلاشبہ ایران کا کردار اور اس سے سعودی عرب اور اسرائیل کی خفیہ و آشکارہ دشمنی ، ان دونوں کو آپس میں ایک دوسرے سے قریب کرنے میں اہم کردار کی حامل رہی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک اور اہم مسئلے کے لئے ابھی سے ہی حالات فراہم کئے ہیں اور کہا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان صلح ہونے کی صورت میں وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی، اقتصادی اور سیاسی تعلقات کو کسی شرمندگی کے بغیر شروع کردیں گے۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری