مقبوضہ کشمیر میں پنڈت خاتون کی آخری رسومات میں مقامی مسلم برادی شامل/ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مسلمانوں نے لے لی


مقبوضہ کشمیر میں پنڈت خاتون کی آخری رسومات میں مقامی مسلم برادی شامل/ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری مسلمانوں نے لے لی

جب کسی کشمیری پنڈت کی موت واقع ہوتی ہے تو کشمیری مسلمانوں کو ان کے آخری رسومات کا انتظام کرتے دیکھا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ بھارتی میڈیا میں جن بحث و مباحثوں کا دور چلتا ہے ان سے کچھ بھی کار آمد باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ اس کشمیریت اور بھائی چارے کی مثالوں پر کسی بھی ٹی وی چینل کے لئے وقت نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کی سیاست کی نذر ہونے والے کشمیر پنڈت نوے کی دہائی میں نقل مکانی کرکے جموں کے مائگرنٹ کیمپوں میں رہائش پذیر ہوئے۔ کشمیر پنڈتوں کو ایک سازش کے تحت ترک سکونت کے لئے مجبور کیا گیا یا وہ ملی ٹینسی کی بھینٹ چڑھ کر یہاں سے نقل مکانی کرکے چلے گئے۔ یہ معمہ تا ایں دم تشنہ جواب ہے۔ کشمیری پنڈتوں کو ریاست چھوڑنے کے بعد بھی مسائل و مشکلات سے چھٹکارا نہیں ملا۔ جموں کے مائگرنٹ کیمپوں میں ان کی دوشیزاوں کے ساتھ نروا سلوک کی خبریں ملتی رہیں۔ آخر کار سرکار کی جانب سے ان کی رہائش کے لئے انتظامات کئے گئے۔ اس سلسلے کے دوران کئی پنڈتوں نے وطن چھوڑنے کو مناسب نہیں سمجھا اور وادی میں ہی سکونت کو ترجیح دی۔ اس کے لئے مسلمان برادری ہمیشہ کاندھے سے کاندھا ملاکر کشمیری پنڈتوں کے ساتھ کھڑی رہی۔ دکھ درد کی ساعت ہو یا خوشی کا ماحول مسلم برادری کو کشمیری پنڈتوں کی ہر تقریب میں پا یا گیا۔

وادی میں آئے روز روایتی کشمیریت کی مثالیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر اس وقت توجہ طلب ماحول ہوتا ہے جب کسی کشمیری پنڈت کی موت واقع ہوتی ہے اور کشمیری مسلمان برادری کو ان کے آخری رسومات کا انتظام کرتے دیکھا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ میڈیا میں جن بحث و مباحثوں کا دور چلتا ہے ان سے کچھ بھی کار آمد باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ اس کشمیریت اور بھائی چارے کی مثالوں پر کسی بھی ٹی وی چینل کے لئے وقت نہیں ہے۔

روائیتی بھائی چارے اور کشمیریت کے ماحول میں جنوبی کشمیر کے اننت ناگ ضلع میں ایک پنڈت خاتون کے فوت ہوجانے پر مقامی مسلمانوں نے اس کی آخری رسومات ادا کیں۔ اننت ناگ کے لیو ڈورہ گاﺅں میں سنیچر کو ایک50سالہ پنڈت خاتون ننسی کول فوت ہوئی اور یہ خبر پھیلتے ہی مقامی مسلمان اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لئے پہنچے۔ ننسی کول جموں کشمیر بینک میں چپراسی کی حیثیت سے کام کررہی تھیں۔ یہ نوکری انہیں ان کے شوہر مہاراج کرشن کول کے فوت ہونے کے بعد دی گئی تھی۔ مہاراج کرشن جنوبی کشمیر کے قاضی گنڈ علاقے میں ایک ٹی سٹال چلا تا تھا۔ ننسی کے چار بچے ہیں جن میں سب سے بڑی ایک 17سالہ بیٹی سروج کول ہے۔ اس کی دوسری بیٹی میناکشی کول دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہے جبکہ اس کا بیٹا نویں جماعت کا طالب علم ہے اور اس کا سب سے چھوٹا بیٹا سونو کول ایل کے جی میں ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان چاروں نابالغ بچوں کو گاﺅں میں کوئی قریبی رشتہ دار نہیں ہے۔ مسلم خواتین کو ننسی کی موت پر ماتم اور سینہ کوبی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ مسلمان پڑوسی ان بچوں کی ڈھارس بندھا رہے تھے جبکہ سینکڑوں مسلمان اس کے انتم سنسکار کی رسومات میں شامل ہوئے۔

مقامی آبادی نے انکے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس موقعہ پر مسلم خواتین میں زبردست غم واندوہ کا ماحول قائم تھا مسلم خواتین کی اشکبار آنکھیں وہ منظر پیش کر رہی تھیں جنکے لئے کسی بھی نیوز چینل کے لئے بحث و مباحثے کرانے کے لئے وقت نہیں ہے۔

اہم ترین اسلامی بیداری خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری