پی آئی پی ایس: شمالی سندھ اور بلوچستان میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے


پی آئی پی ایس: شمالی سندھ اور بلوچستان میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے

پاکستان انسٹیٹوٹ فور پیس اسٹڈیز کی جانب سے پیش کی گئی پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2017 کے مطابق پاکستان، خصوصی طور پر شمالی سندھ اور بلوچستان میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق پاکستان میں داعش کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان انسٹیٹوٹ فور پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے پیش کی گئی پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2017 کے مطابق پاکستان، خصوصی طور پر شمالی سندھ اور بلوچستان میں داعش کا اثر بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی 6 بڑی کارروائیاں جن میں 153 افراد ہلاک ہوئے تھے، کو اس ہی دہشت گرد تنظیم کی جانب سے کیے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

پی آئی پی ایس کی جانب سے پیش کی گئی اس رپورٹ کو مختلف ذرائع، انٹرویوز اور آرٹیکلز کے ذریعے تیار کیا گیا ہے۔

پی آئی پی ایس کے سینیئر پروجیکٹ مینیجر محمد اسماعیل خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال داعش نے 6 خطرناک دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی جن میں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبد الغفور حیدری کی گاڑی پر حملہ، سہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر حملہ، لسبیلہ میں شاہ نورانی کے مزار پر حملہ، کوئٹہ میں چرچ حملہ، فتح پور میں درگاہ پیر رکھیال شاہ پر حملہ اور دو چینی باشندوں کے اغوا اور قتل کے واقعات میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے کیوںکہ مستقبل میں ممکن ہے کہ یہ غیر ملکی جنگجو مشرق وسطیٰ کے بعد پاکستان کو اپنا نشانہ بنائیں۔

ڈان نیوز کے مطابق رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ گزشتہ سال سے دہشت گردی کے واقعات میں 16 فیصد کمی آنے کے باوجود تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس کے اتحادی تنظیمیں ملک کے لیے خطرہ ہیں، جس کے علاوہ بلوچستان میں باغیوں کی تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ بھی ملک کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان اور سندھ کے شمالی علاقوں میں داعش کی موجود سے بھی ایک نیا خطرہ ابھر رہا ہے جبکہ کئی دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی داعش کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔

رپورٹ میں انسداد دہشت گردی منصوبے پر نظر رکھنے والے پارلیمانی رہنماؤں کو تجویز دی گئی کہ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور بہترین حکمت عملی اپنائی جانی چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق 2017 میں دہشت گردوں، باغیوں اور فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیموں کی جانب سے 64 اضلاع میں 370 دہشت گردی کے واقعات سامنے آئے جن میں 24 خود کش دھماکے شامل ہیں جن میں 815 افراد ہلاک اور 1 ہزار 736 زخمی ہوئے تھے، ان اعدادو شمار میں گزشتہ سال سے 16 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں گزشتہ سال سے 10 فیصد کمی ہوئی ہے۔

ان حملوں میں سے 213 حملے ٹی ٹی پی، اس کی ذیلی تنظیم جماعت الاحرار اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کیے گئے ہیں۔

تاہم بلوچستان اور کچھ سندھ کی بغاوت کرنے والی تنظیموں کی جانب سے 138 حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 140 افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ فرقہ واریت کی بنیاد پر 19 دہشت گردی کے حملے کیے گئے جن میں 71 افراد ہلاک اور 97 زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ 2016 کے مقابلے میں افغان، ایران اور بھارتی سرحد سے 2017 میں حملوں کی شرح میں 131 فیصد اضافہ ہوا جس میں کل 171 حملے ہوئے جس کے نتیجے میں 188 افراد ہلاک اور 348 زخمی ہوئے۔

علاوہ ازیں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے 2017 میں کیے گئے 75 آپریشنز میں 524 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ 2016 میں 809 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق قومی سیکیورٹی کے مشیر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ سے کیے گئے انٹرویو میں انکشاف کیا گیا کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کو مرتب کرتے اندرونی حکومت تک پہنچا دیا گیا ہے جس کا اس سال آغاز کیا جائے گا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی (این ائی سی پی) کو بھی عالمی اور علاقائی اعتبار سے زیر غور لایا جارہا ہے جس میں پاک چین اور امریکا کے تعلقات پر بات کی جائے گی۔

رپورٹ میں کیے گئے ایک اور انٹرویو کے مطابق نیشنل کو آرڈینیٹر برائے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) احسا ن غنی نے بتایا کہ این آئی سی پی پر نظر ثانی کی جارہی ہے جس کے مطابق ایک نئی پالیسی کے ساتھ ساتھ انسداد انتہا پسندی پر بھی ایک سئی پالیسی کا رواں سال اعلان کیا جائے گا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری