ایک موقع، ایران کے لئے بھی پاکستان کے لئے بھی، عزم ملی کی ضرورت!!!


ایک موقع، ایران کے لئے بھی پاکستان کے لئے بھی، عزم ملی کی ضرورت!!!

شیطان کے ساتھ دشمنی میں اگرچہ مسائل ہوتے ہیں کیونکہ جنگ میں مسائل کا ہونا فطری امر ہے لیکن شیطان کی دوستی نابودی کا سبب بنتی ہے اور ان سطور کے قارئین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ امریکہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟ کہاں ہے صدام، کہاں ہے قذافی، کہاں ہے حسنی مبارک؟

مواقع بہت میسر آتے ہیں لیکن ناعاقبت اندیشیاں انہیں نابود کردیتی ہیں۔ اسلامی انقلاب عالمی استکبار اور اس کے سرغنے امریکہ کے خلاف تھا، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے امریکہ کو شیطان بزرگ کا لقب دیا اور دنیا کو بتایا کہ شیطان صرف وہی ابلیس ہی نہیں ہے جس نے انسان کی گمراہی کی قسم کھائی ہے بلکہ کچھ طاقتیں بھی ہیں جو شیطان کا کردار ادا کرتی ہیں۔ شیطان کے ساتھ دشمنی میں اگرچہ مسائل ہوتے ہیں کیونکہ جنگ میں مسائل کا ہونا فطری امر ہے لیکن شیطان کی دوستی نابودی کا سبب بنتی ہے اور ان سطور کے قارئین نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ امریکہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟ کہاں ہے صدام، کہاں ہے قذافی، کہاں ہے حسنی مبارک؟ ملک پاکستان کے کتنے حکام کو امریکہ نے قتل کیا اور وہ کس قدر امریکہ کے قریبی تھے؟

ایران کی اسلامی جمہوری حکومت نے اپنی پوری قوت صرف کرکے دنیا والوں کو بتایا اور جتایا کہ امریکہ ان کا دشمن ہے لیکن نہ مانے یہاں تک کہ جب امریکہ دوستی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور آخری لمحوں میں پشیمان ہوئے لیکن دیر ہوچکی تھی اور پشیمانی بےسود تھی۔

امریکہ دشمن تھا، دشمن ہے اور دشمن رہے گا کس کا؟ انسان کا اور خاص طور پر مسلمان کا؛ لیکن وہاں کچھ لوگ برسراقتدار آتے ہیں جن کا ظاہری چہرہ کچھ دوستانہ سا لگتا ہے اور لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ وہ ہنستا مسکراتا چہرہ لے کر مخمل کے دستانے پہن کر آپ سے ملتے ہیں تو آپ دھوکہ کھا جاتے ہیں لیکن انقلاب اسلامی نے لوگوں سے کہا کہ ہنسے چہرے والے نقاب کا بھروسہ نہ کریں، اس کے مخمل کے دستانوں کے نیچے خون چکاں آہنی ہاتھ ہیں لیکن شاید پھر بھی کئی لوگ دھوکہ کھا جاتے تھے مگر امریکہ پر جب حماقت کی حکمرانی ہوئی، اور فحش فلموں کے اداکار کو صدر کے طور پر منتخب کیا گیا جو بےادبی، بےشرمی، بےحیائی، فحاشی اور عریانی کا مجسمہ ہے اور لگتا ہے کہ امریکہ کے اندر کی بادشاہ گر قوتوں نے بھی اس سے خوفزدہ ہوکر اس کی بادشاہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے، تو اس نے آکر وہ ہنستا نقاب دور پھینکا اور مخمل کے دستانے اتار پھینکے اور امریکہ ہمارے سامنے آیا۔

امریکہ کی اصل صورت اس وقت ٹرمپ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ عرب حکمران اس کو رشوت دیتے ہیں تاکہ برسراقتدار رہیں اور اس کی قیادت میں قائم سعودی اتحاد کا حصہ بنتے ہیں، اور کچھ دوسرے ممالک بھی شاید خوف کے مارے سعودیوں کی پیروی پر مجبور ہیں۔

امریکہ اس قدر حقیر ہوچکا ہے کہ ایران میں چند افراد کی بغاوت کا سہارا لیتا ہے اور امریکی صدر کی حالت یہ ہے کہ وہ مسلسل آٹھ پیغامات اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف سے پاکستان کو دی ہوئی امداد کو امریکہ حماقت  قرار دیتا ہے اور اس امداد کے بدلے کمائے ہوئے امریکہ کے کھربوں کے منافع کو نظر انداز کردیتا ہے۔ اس قدر مخبوط الحواس کہ اپنے پیشرو امریکی حکمرانوں کو احمق قرار دیتا ہے گویا کہ وہ شیطنت میں اس سے کم تھے اور انھوں نے امریکہ کے خزانے سے پاکستان کی مدد کی ہے لیکن اس کے بدلے کچھ کمایا نہیں ہے!! پاکستانی امداد کے عوض افغانستان سے قیمتی پتھروں کے سینکڑوں جہاز بھر بھر کے لے جانا، افیون کی کاشت میں اضافہ کرنا اور منشیات کے لین دین میں حصہ وصول کرنا، اپنے مزاحم مسلح گروہوں سے چھٹکارا پانا اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لئے مختلف دہشت گرد تنظیمیں پالنا، داعش کو سنبھالا دینا اور عسکری اور دہشت گردانہ تربیت دینا اور انہیں اپنے اہداف کے لئے شام، لیبیا، مصر، عراق اور یمن میں استعمال کرنا اور ان ممالک کے آٹار قدیمہ اور مال و دولت اور تیل وغیرہ کو لوٹ کر اپنا خزانہ بھرنا، لیکن اللہ کا شکر کہ اس نے ہمارے دشمن کو نادانوں میں سے قرار دیا ہے اور اب ہمارا دشمن بےنقاب ہوکر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

ایران جانتا ہے اپنے دشمن کو، جیسا کہ پاکستان کے عوام بھی جانتے تھے کہ یہ دشمن ہے اور کبھی دوست نہیں بن سکتا۔ پاکستانی بھارت کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی پینگیں دیکھ رہے ہیں، حکمران بھی دیکھ رہے ہیں لیکن حکمرانوں کے کچھ اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات ہوتے ہیں اور ملت کے لئے تو قومی مفاد زیادہ عزیز ہیں لہذا وہ بےدھڑک اپنی رائے بیان کرتے ہیں جبکہ حکمران تو حکمران ہیں نا۔

ایک جملہ معترضہ: بھارت اور امریکہ کے درمیان اشتراکات اتنے ہیں کہ ان کے تعلقات سے حیرت کی ضرورت نہیں ہے حیرت تو اس بات کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بےشمار افتراقات کے باوجود اسے دوست اور تزویری شریک سمجھا جائے اور اس سے دوستی کی توقع کی جائے۔

گذشتہ پندرہ برسوں کے دوران کئی اربوں کی امریکی امداد کا کتنا حصہ عوام پر خرچ ہوا، کتنا حصہ مسلح افواج کی تقویت کے لئے خرچ ہوا اور کتنا حصہ ان حکمرانوں کے اکاؤنٹس میں جمع ہوا جن کا رویہ امریکہ کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں ہمیشہ ملتمسانہ اور معذرت خواہانہ رہا ہے اور قوم و ملک کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کے مستقبل کے نہایت اہم منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں۔

ایران امریکہ کا دشمن سمجھا جاتا ہے اور پاکستانی حکمران ہمیشہ امریکہ کے تزویری شرکاء کہلوانے پر اصرار کرتے نظر آئے ہیں لیکن اس وقت امریکہ نے ایران اور پاکستان کے ساتھ یکساں سطح پر اظہار نہیں کیا ہے بلکہ پاکستان پر کچھ زیادہ ہی بڑے الزامات لگائے ہیں: "امریکہ کی امداد کھانے والا ملک جو کبھی امریکہ سے وفا نہیں کرتا، دہشت گردوں کو خفیہ ٹھکانے فراہم کرتا ہے وغیرہ وغیرہ"۔۔۔

پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے حال ہی میں کہا ہے کہ "پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیکر اور امریکی جنگ میں شرکت کرکے بہت بڑی غلطی کی؛ ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں ہے" گوکہ وہ دوستانہ گلہ مندی اور دوستی کی گنجائش باقی رکھنے کی پالیسی کو بھی نہیں بھولے ہیں اور ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد روکنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ "انھوں نے کہا کہ اتحادیوں کا ایسا طریقہ کار نہیں ہوتا جو امریکہ نے اپنایا ہے"۔

یہ ہے اصل امریکہ، ٹرمپ کے امریکہ میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے؛ افغانستان کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ہر طرح سے استعمال کرکے منافقت کی انتہا کرتے ہوئے امریکہ نے افغان جنگ میں اپنی شکست کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے۔

تو "چہ باید کرد" کیا بیٹھ کر رونا چاہئے یا اپنے گذشتہ ایام کی حسرت میں مرنے کا انتظار کرنا چاہئے یا اپنے اندر اپنی صلاحیتوں کی طرف پلٹ کر ان دوستوں کا ہاتھ تھامنا چاہئے جنہوں نے اپنی وفاداری کا ہزاربار ثبوت دیا ہے؟

کیا امریکہ کو اس کی کئے کی سزا دینے کی ضرورت نہیں ہے جس نے اپنی جنگ پاکستان کی سرزمین پر منتقل کرکے گذشتہ 17 برسوں سے اس ملک کو بدامنی سے دوچار کیا ہے؟ مقصد میزائل فائر کرکے واشنگٹن کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان تمام تنظیموں سے نکلنے کا اعلان کیا جائے جن کا مقصد صہیونی ریاست کو تحفظ دینا ہے: سعودی اتحاد وغیرہ؛ مقصد یہ ہے کہ 30 برسوں سے تعطل کا شکار ایران ـ پاکستان گیس پائپ لائن کو زندہ کیا جائے اور اس پر فوری طور پر عملدرآمد کیا جائے۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ ایران اور چین کے ساتھ زیادہ دوستانہ انداز سے مشترکہ منصوبے شروع کئے جائیں اور معطل منصوبوں کے احیاء کا اہتمام کیا جائے۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ بجلی اور ایندھن کی ضروریات ان ملکوں سے پوری کی جائیں جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موقف اپناتے ہیں اور پاکستان کو فائدہ پہنچانے کے عوض اپنے لئے معمول کے منافع سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے نہ دالبندین کا ہوائی اڈہ، نہ پسنی کا ہوائی اڈہ، نہ پشاور اور حیکب آباد کے ہوائی اڈے بلکہ وہ تو اس ملک کی آبادی کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں کیونکہ وہ ملک نادان ہے جو پڑوسی ملک کی تباہی میں اپنی آبادی تلاش کرتا ہے کیونکہ آباد پڑوسی اگر فائدہ نہ بھی پہنچائے نقصان نہیں پہنچایا کرتا یا اس کی جانب سے کسی نقصان کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔

ایران ـ پاکستان ـ چین اتحاد کا امکان پوری طرح ابھر کر سامنے آیا ہے، ایران ـ پاکستان پائپ لائن پاکستان کی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ یہاں بہت سے متعدد تھرمل بجلی گھر بنا کر لوڈشیڈنگ کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے اور ساتھ ایران سے سستی بجلی بھی خریدی جاسکتی ہے، امن و امان کے حوالے سے جنرل باجوہ کے دورے کے دوران طے پانے والے مفاہمت ناموں پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان ایک کمزور اور بےدست و پا ملک نہیں ہے صرف حکمرانوں کے عزم کی ضرورت ہے اور اگر علاقے کے تین بڑے ملک ہاتھوں میں ہاتھ دے کر متحد ہوجائیں، یہ پاکستان اور چین، ایران ـ ترکی ـ روس اتحاد میں شامل ہوجائیں تو راقم الحروف کا نہیں خیال کہ مستقبل قریب میں صورت حال یہ ہوگی کہ جان کر امریکی دھوکے کھانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور کبھی مذاکرہ ہوگا تو امریکی شرائط پر سمجھوتے کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

صرف عزم ملی اور پڑوسیوں کا مشترکہ اور اٹل ارادہ چاہئے،

ماحول تیار ہے، امریکہ کی نمک حرامی کا جواب علاقائی اتحاد۔

تحریر: فرحت حسین مہدوی

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری