امریکہ بدستور شام میں عدم استحکام کا خواہشمند


امریکہ بدستور شام میں عدم استحکام کا خواہشمند

شام میں بحران اور داعش کے خاتمے کے باوجود واشنگٹن بدستور اس ملک کا استحکام درہم برہم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اور شام کے قانونی صدر کو معزول کرنے کی اپنی پالیسیوں پر بھرپور عمل پیرا ہے-

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق شام کے داخلی امور میں مداخلت اور علاقے میں ثبات و استحکام کو درہم برہم کرنے کے لئے تازہ ترین اقدامات کے سلسلے میں روسی پارلیمنٹ ڈوما کی دفاعی کمیٹی کے نائب سربراہ یوری شویٹکین کا کہنا ہے کہ شام میں بارڈر سیکورٹی فورس قائم کرنے کے لئے داعش کے خلاف امریکی سربراہی والے اتحاد کے منصوبے کا مقصد بشاراسد کی حکومتب کو گرانا ہے-

ان کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس، ایس ڈی ایف یا سیرین ڈیموکریٹک فورسس کے ذریعے شام میں بارڈر سیکورٹی فورس کی تشکیل میں مدد کررہا - جیسا کہ روئٹر نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ماسکو نے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اسی طرح انقرہ نے واشنگٹن کی جانب سے اس اقدام کی حمایت کو کہ جو انقرہ - واشنگٹن تعلقات کے مزید خراب ہونے پر منتج ہوگی ، ناقابل قبول قرار دیا ہے- 

سحر عالمی نیٹ ورک کے مطابق ایران ، روس اور ترکی نے ایک سفارتی مثلث تشکیل دے کر ، بحران شام کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے- اس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی کہ جو خود کو شام کی جنگ میں شکست خوردہ تصور کرتے ہیں بدستور اس امید میں ہیں کہ وہ نئے دوستوں اور شام مخالف نئے سیکورٹی پلان کے ذریعے ایک بار پھر اس ملک کے حالات کو خراب کردیں گے- ایک نئی مداخلت کہ جو حالیہ ہفتے میں کی گئی ہے وہ شام میں استقامتی فورسس پر صیہونی حکومت کے فضائی حملے ہیں کہ جو بلاشبہ واشنگٹن کی حمایت سے انجام پائے ہیں اور شام کے امور میں مداخلت کا ایک نیا باب شمار ہوتے ہیں- دوسرا اقدام، بشارحکومت اور شام کے اندر ترکی کے فوجیوں سے لڑنے کے لئے کرد ملیشیا کو ٹریننگ دینا ہے اور یہ نام نہاد ڈیموکریٹک فورسس بھی امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک کی حمایت و مدد سے شام کی سرکاری فوج پر حملے کرتی ہیں- ایران، روس اور ترکی کا سہ فریقی اتحاد توڑنے اور بشاراسد حکومت پر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف نئے الزامات وغیرہ بشاراسد مخالف اتحاد کے سیاسی ، فوجی اور تشہیراتی پروگنڈے ہیں کہ جسے امید ہے کہ داعش کے نہ ہونے کے باوجود  وہ شامی حکومت کو کمزور کرسکتا ہے-

اب جب کہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اتحاد کے پاس شام کے امورمیں مداخلت کے لئے کوئی بہانہ نہیں رہ گیا ہے تو دمشق کے داخلی امور میں سیاسی و فوجی مداخلتوں نے بخوبی اس اتحاد کی اصلی ماہیت اور شام میں اس کی پانچ سال سے جاری مداخلتوں کو ثابت کردیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ کبھی بھی اس اتحاد کے ایجنڈے میں نہیں تھی اور اس کا مقصد صرف اسد حکومت کا تختہ الٹ کر ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا تھا- اس کے باوجود کہ دہشتگردی مخالف نام نہاد اتحاد کے رکن یورپی ممالک بظاہر شام کے امور میں براہ راست مداخلت میں واشنگٹن کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں لیکن ایسا نظرآتا ہے کہ مہاجرین و پناہ گزینوں کے بحران کے پیش نظر کہ جس نے یورپ پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے، یورپ کو بھی ایران ، روس اور ترکی سے ملحق ہوجانا چاہئے اور شام کی تعمیر نو میں کہ جو شامی مہاجرین کو اپنے وطن واپس لا سکتی ہے ، شرکت کرنا چاہئے-

یورپ کو واشنگٹن کی حمایت و اپنی مشرقی سرحدوں پر جاری عدم استحکام اور ایران کے ساتھ ہونے اور مہاجرین کے بحران کے خاتمے کے دو راہے میں سے کسی ایک اسٹریٹیجک انتخاب پر عمل پیرا ہونا چاہئے-

اہم ترین دنیا خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری