کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بینظیربھٹوکو قتل کرنے کا دعویٰ


کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بینظیربھٹوکو قتل کرنے کا دعویٰ

​​​​​​​کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 10 سال گزرنے کے بعد انہیں قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 10 سال گزرنے کے بعد انہیں قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ بے نظیر کو قتل  کرنے کا دعویٰ  طالبان رہنما ابومنصور عاصم  نے ’انقلاب محسود‘ کے نام سے چھپنے والی اپنی کتاب میں کیا ہے۔یہ کتاب افغان صوبے پکتیکا  میں 30نومبر2017کو شائع کی گئی جسے اتوار کے روز متعارف کرایا گیا۔ اردو زبان میں چھپنے والی کتاب588صفحات پر مشتمل ہے جس میں طالبان رہنماوں کی کئی تصاویر  بھی شامل ہیں۔

کتاب میں کہا گیا ہے کہ بلال نامی خودکش حملہ آور  اور اس کے ساتھی اکرام اللہ کو بے نظیر کو قتل کرنے کا ٹاسک دیا گیا، بلال جو کہ  سعید کے نام سے جانا جاتا تھا نے 27دسمبر2007کو بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ کیا، حملہ آور نے ہجوم میں پہنچ کرپہلے بے نظیر بھٹو پر فائرنگ کی جس کی ایک گولی سابق وزیراعظم کو لگی اور پھر بارود سے بھری جیکٹ کے ذریعے خود کو اڑا لیا، حملے کے بعد اکرام اللہ موقع سے فرار ہوگیا جو تاحال زندہ ہے۔

اکرام اللہ جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین ٹاؤن کا رہائشی ہے تاہم کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا یہ وہی اکرام اللہ ہے جسے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بانی ٹی ٹی پی بیت اللہ  محسودسمیت  مفرور قرار دیا تھا۔ بیت اللہ محسود 2009میں جنوبی وزیرستان میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان  میں شامل بیشتر افراد کا تعلق محسود قبائل سے  تھا جو2009 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد جان بچا کر افغانستان فرار ہوگئے جہاں وہ پکتیا اور پکتیکا صوبوں میں روپوش ہیں۔

ایکسپریس نیوز نے لکھا ہے کہ کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اکتوبر2007 کو بے نظیر کی جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر کراچی میں استقبالی ریلی پر ہونے والے خودکش حملے طالبان نے کیے جس میں 140 افرادجاں بحق ہوگئے جب کہ بے نظیر معجزانہ طور پرمحفوظ رہی تھیں۔ اس حملے کے باوجود حکومت نے بے نظیر کی سیکورٹی کو مزید سخت کرنے کے غرض سے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے حملہ آوروں کے لیے ممکن ہوا کہ وہ آسانی سے راولپنڈی میں بے نظیر کو نشانہ بنائیں۔

کتاب کے مطابق تفتیش کاروں نے بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار طالبان کو قرار دیا تاہم بیت اللہ محسود نے ابتدائی طور پر واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور بیت اللہ محسود کا اصرار تھا کہ بے نظیر کے قتل کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو اور بھائیوں شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا۔

ٹی ٹی پی محسود قیادت نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 10 سال گزرنے کے بعد انہیں قتل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ کتاب میں تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ ،عسکری کارروائیاں، افغانستان میں تنظیم کی سرگرمیاں، قبائلی نظام، ٹی ٹی پی  میں محسود قبائل کا کردار اور کراچی میں انسدادپولیو ٹیموں پر حملوں کے بارے میں تفصیل بتائی گئی ہے۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کو27دسمبر2007کو روالپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسہ عام سے اختتام پر کارکنوں کے حصار میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا۔

اس وقت کے صدر مملکت پرویز مشرف نے طالبان کو بے نظیر کا قاتل قرار دیا جب کہ طالبان نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی تاہم بعدازاں حکومتی عہدیداروں نے طالبان رہنماوں کی آوڈیو  ریلیز کی جس میں وہ بے نظیر کی شہادت  سے متعلق باتیں کررہے تھے۔

قتل کو ایک عشرہ  گزرجانے کے باوجود کسی دہشتگرد تنظیم یا شدت پسند گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ ایک دہائی بعد طالبان نے پہلی بار بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

بے نظیر بھٹو کی دسویں برسی پر ان کے بیٹے اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پرویز مشرف کو اپنی والدہ کا قاتل قرار دیا جب کہ سابق صدر نے پی پی قیادت کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ رحمان ملک بے نظیر کے سیکورٹی انچارج تھے جو خودکش حملے کے بعد موقع سے فرار ہوگئے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری