لاہور ہائی کورٹ: سیاسی جماعتوں کو رات 12 بجے تک دھرنے کی اجازت


لاہور ہائی کورٹ: سیاسی جماعتوں کو رات 12 بجے تک دھرنے کی اجازت

لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی دارالحکومت کے علاقے مال روڈ پر سیاسی جماعتوں کو دھرنے کرنے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے ہوئے انہیں رات 12 بجے تک اسے ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے مال روڈ پر سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ دیر بعد سنایا جائے گا۔

لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس شاہد کریم اور جسٹس شاہد جمیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی جس پر کچھ دیر قبل فیصلہ محفوظ کرلیا گیا تھا، تاہم فیصلہ سناتے ہوئے عدالتِ عالیہ نے سیاسی جماعتوں کو دھرنا کرنے کی مشروط اجازت دے دی۔

سماعت کے دوران عوامی تحریک کی جانب سے ایڈووکیٹ اظہر صدیق، پیپلزپارٹی کے لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمٰن اور درخواست گزار کے وکیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

خیال رہے کہ لاہور کے مال روڈ پر سیاسی جماعتوں کا دھرنا روکنے کے لیے اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ سمیت 2 تاجروں نے درخواست دائر کی تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ ہوم سیکریٹری عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے، وہ ذمہ دار ہیں انہیں عدالت میں پیش ہونا چاہیے تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی جانب سے صوبائی حکومت کی دھرنا اور احتجاج سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ آپ نے دھرنے کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ دھرنے کے باعث ہم عدالت کیسے پہنچے؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی جانب سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس میں کسی قانون کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ ڈپٹی کمشنر کے خط سے لگتا ہے کہ انہوں نے دھرنا روکنے کے بجائے اس کی اجازت دے دی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ دھرنا انتظامیہ کو دھرنے سے متعلق مسائل اور سیکیورٹی خدشات سے آگاہ کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ ’لولی لنگڑی، بہری، گونگی حکومت کے خلاف دھرنا جمہوری حق ہے، پاکستان کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے پانامہ فیصلہ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اجتجاج کا دائرہ کار بڑھ سکتا ہے‘۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ عام آدمی کے حقوق سلب ہوں، ان درخواستوں کا تعلق آپ کی اس بات سے نہیں ہے بلکہ ان کے حقوق اہم ہیں جو اسکولوں اور ہسپتالوں میں نہیں پہنچ پا رہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی منتخب حکومت کے خلاف دھرنا دینے جارہی ہیں اور مال روڈ پر اس دھرنے سے تاجر برادری متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا دھرنا پی پی سی 124 کی خلاف ورزی ہے اور اس دھرنے سے عوام کے حقوق مجروح ہوں گے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ریاست عوام کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار ہے، سیای جماعتوں کے دھرنے سے مال روڈ اور ارد گرد مارکیٹیں بند ہونے سے ملکی معیشت کو بھی نقصان ہوگا۔

اے کے ڈوگر نے کہا کہ رات کو ڈاکٹر طاہرالقادری کو کہتے ہوئے سنا کہ شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ تک دھرنا جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اب تو بات استعفوں سے بھی آگے نکل گئی ہے، عوامی تحریک والے (ن) لیگ کی حکومت کے خاتمے کا کہتے ہیں۔

اے کے ڈوگر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی دھرنے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں لیکن حکومت سوئی رہی، اگر حکومت قانون پر عمل نہیں کرواسکتی تو اسے حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ واٹر کینن، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے حکومت دھرنا روک سکتی ہے، حکومت خوفزدہ ہے کہ کہیں مزاحمت پر خون نہ بہہ جائے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ 2014 میں آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ کیا گیا، اس دھرنے میں بھی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے دھرنے سے روکنے کا نوٹیفکیشن اجازت دینے کے مترادف ہے، اگر پیمرا میڈیا ہاؤسز کو دھرنوں کی کوریج سے روک دے تو یہ احتجاج ختم ہوجائیں گے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو دھرنا دینا ہی ہے تو باغ جناح یا ایسی کسی جگہ پر دیں، جس سے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں۔

بعد ازاں عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا تاہم اسے سناتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو رات 12 بجے تک دھرنا کرنے کی اجازت دے دی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری