یادداشت | داعش کے بعد کے دور میں مذاکرات کو تشہیری افواہوں کا متبادل ہونا چاہئے


یادداشت | داعش کے بعد کے دور میں مذاکرات کو تشہیری افواہوں کا متبادل ہونا چاہئے

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ترک روزنامے "ینی شفق Yeni Şafak" میں چھپنے والی ایک یادداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ داعش کے بعد کے دور میں مذاکرات اور گفتگو کو تشہیراتی افواہوں کے متبادل کے طور پر اپنایا جائے۔ 

خبر رساں ادارہ تسنیم: انھوں نے پڑوسی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ "خلیج فارس علاقائی مذاکرات فورم Regional Dialogue Forum in Persian Gulf" میں شامل ہوجائیں جس کی تجویز اسلامی جمہوریہ ایران نے پیش کی ہے۔ 

وزیر خارجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یادداشت کا مفصل متن حسب ذیل ہے:

داعش کا زوال نہ صرف علاقے کے ایک بڑے حصے کے لئے استحکام کی بحالی کی نوید نہیں لا سکا بلکہ ممکن ہے کہ یہ علاقے میں بعض نئے تنازعات اور بحرانوں پر منتج ہوجائے۔ اس موضوع کا ایک مصداق ایران کی خارجہ پالیسی کے حقائق کو چھپانے کی غرض سے عصبی جذبات و ہیجانات کو ہوا دینے کی کوششیں ہیں جو عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ 

داعش نے لوگوں کو تاریک ترین ادوار میں جینے پر مجبور کیا۔ انھوں نے اپنی قساوتوں اور سنگدلیوں کے ذریعے اپنا شیطانی چہرہ دنیا بھر کے انسانوں کی نظروں کے سامنے عیاں کیا؛ بایں وجود اس ظہور پذیر ہوتی ہوئی دشوار صورت حال سے، اس خطرے کے سامنے مزاحمت و استقامت کے ایک موقع نے بھی جنم لیا۔ داعش کے خلاف مشترکہ کاروائیاں ایک نئے زمانے کے طلوع ہونے کی نوید بھی ہوسکتی ہیں۔ 

دو حیاتی مفاہیم

اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں مغربی نظام کے بعد کی دنیا کی طرف منتقلی کی تعریف (Definition) کے لئے نئے رجحانات اور مفاہیم کی ضرورت ہے۔ دو مفاہیم مغربی ایشیا (مشرق وسطی) میں ظہور پذیر ہونے والی کایا پلٹ (Paradigm) کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں:
1۔ ایک مقتدر خطے کی تخلیق
2۔ ایک سیکورٹی نیٹ ورک کا قیام

اس طرح بڑے اور چھوٹے ممالک ـ حتی وہ بھی جو پوری تاریخ میں ایک دوسرے کے دشمن تھے ـ علاقے میں امن و سلامتی کے قیام کے حوالے سے یکسان مدد کرسکتے ہیں۔ 

ایک مقتدر اور طاقتور خطے کی تخلیق کے تصور کی جڑیں ـ جو دوسری طاقتوں اور علاقائی کھلاڑیوں کو منظر سے ہٹانے کے خلاف ہے ـ تمام فریقوں کے مفادات کے احترام کو تسلیم کرنے کے اصول میں پیوست ہیں۔ 

جو بھی ملک توسیع پسندانہ اور غالبانہ (Expansionistic and Hegemonic) پالیسیوں پر کاربند ہو وہ نہ صرف تضادات سے بھرپور سیاست کا شکار ہوچکا ہے بلکہ اس نے ایک غیرممکن عمل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے اور جو لوگ اس قسم کی پالیسیوں پر اصرار کریں گے وہ عدم استحکام کا سرچشمہ ہونگے۔ 

علاقے میں موجودہ اسلحے کی دوڑ کو ہم اس قسم کی تخریبی مسابقت کے لئے بطور مثال پیش کرسکتے ہیں۔ اپنے حیاتی وسائل کو ہتھیار بنانے والوں کی جیبیں بھرنے کی پالیسی سلامتی اور امن کے قیام میں کوئی مدد بہم نہیں پہنچا سکی ہے۔ عسکریت پسندی محض غم انگیز واقعات پر منتج ہونے والی مہم جوئیوں کا سبب بنی ہے۔ 

سیکورٹی نیٹ ورک کے قیام کی تجویز 

دوسری طرف سے دنیا بھر میں معمول کی روایتی اتحاد سازی کا دور گذر چکا ہے۔ موجودہ دنیا کو مدنظر رکھتے ہوئے ـ جس کی ہرچیز باہم آمیختہ اور پیچیدہ ہوچکی ہے ـ سمجھ لیتے ہیں کہ اجتماعی سلامتی کی تجویز ـ بالخصوص خلیج فارس کے خطے کے لئے ـ اپنی افادیت کھو چکی ہے کیونکہ اس تجویز کا بنیادی محور "مفادات کی یکسانیت" ہے۔ جبکہ "سیکورٹی نیٹ ورک کے قیام" کی تجویز سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران نے ـ ممالک کے درمیان موجودہ گوناگوں مسائل، مفادات کے درمیان تضادات سے لے کر طاقت کے اختلاف اور اس اختلاف کی وسعت تک کو مد نظر رکھ کر ـ پیش کی ہے۔ 

باوجود اس کے کہ یہ تجویز سادہ سے متغیرات (variables) پر مشتمل ہے تنازعات اور جھگڑوں اور اختلافات مول لینے کی بجائے مفادات اور مصلحتوں کو ترجیح دینے میں مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔ 

یہ نظریہ بڑی طاقتوں کے ہاتھوں صاحب ثروت اشرافیہ (Oligarchic) نظام ہائے حکومت کے قیام کا سد باب کرکے شراکت داری کے نظریئے کے حامی چھوٹے ممالک کی ممکنہ استعداد کو تسلیم کرتا ہے۔  

مجوزہ نظام کی بنیاد اور بنیادی ڈھانچہ سادہ سا ہے اور ایسے مشترکہ معیاری قواعد و ضوابط سے عبارت ہے جن کے مشابہ قواعد اقوام متحدہ کی دستاویزات میں مندرج ہیں: خودمختار ممالک کی حکمرانی کی برابری کا حق، دھونس دھمکی یا طاقت کے استعمال سے اجتناب، مسائل کو پرامن روشوں سے حل کرنا، ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام اور ملکوں کا حق خودارادیت۔ 

سیکورٹی نیٹ ورک کا قیام ان تصورات میں سے نہیں ہے جس کی جڑیں مثالی شہر ـ یا خیالی دنیا ـ کے تصورات میں پیوست ہوں۔ یہ تجویز خطے کو موجودہ منحوس صورت حال سے نکالنے، بیرونی طاقتوں اور اتحادوں کا سہارا ترک کرنے، تیل کے ڈالروں سے امن و سلامتی خریدنے کے ڈراؤنے خواب سے بیدار کرنے اور بڑی طاقتوں کی چاپلوسی سے نجات کا واحد حقیقی راستہ ہے۔ 

توقع کی جاتی ہے کہ دوسرے ممالک ـ بالخصوص ہمارے یورپی متحدین ـ اس روش کو اپنے مفادات کے حصول کی واحد روش کے طور پر تسلیم کریں۔ ہمارے خطے میں یورپیوں کے متحدین کو بھی چاہئے کہ وہ ان (یورپیوں) کو اس روش کو تسلیم کرنے کی دعوت دیں۔ 

مذاکرات اور باہمی اعتماد کو بات چیت اور اعتماد پر غالب آنا چاہئے

موجودہ افراتفری اور انارکی کی کیفیت سے استحکام کی طرف منتقلی کا سب سے پہلا لازمہ یہ ہے کہ علاقے میں اعتماد اور بات چیت اور اعتماد کی فضا قائم کی جائے۔ 

مغربی ایشیا میں ہمیں بات چیت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس حقیقت کو حکمرانوں اور عوام نیز حکومتوں اور دوسری اقوام کے درمیان رائج ماحول میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ 

بات چیت کا مقصد اس حقیقت کی رونمائی ہے کہ ہم سب کی تمام تر فکرمندیاں، تشویشات، امیدیں اور آرزوئیں بالکل یکسان ہیں۔ 

اس طرح کی بات چیت تشہیری افواہوں اور درشت گوئیوں کی جگہ لے سکتی ہے اور اسے اس کی جگہ لینا بھی چاہئے۔ اس طرح کی بات چیت کو اعتماد ساز اقدامات کے ساتھ ساتھ شروع ہونا چاہئے۔ 

سیاحت کا فروغ، جوہری سلامتی سے لے کر ماحولیات کی آلوگی اور فطری آفتوں کے انتظام و انصرام تک کے لئے ورک گروپوں کا قیام، چند فریقی عسکری اجلاسوں کو منظم کرنا، فوجی مشقوں سے قبل ایک دوسرے کو باخبر کرنا، فوجی امداد کے حصول یا فوجی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے کے سامنے شفاف سازی کرنا، اور فوجی اخراجات میں کمیوہ اقدامات ہیں جو دوسروں کو چھیڑنے اور دوسروں کے خلاف جارحانہ اقدامات سے اجتناب پر مبنی کثیر الفریقی مفاہمت کا امکان فراہم کرسکتے ہیں۔ 

اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران تجویز دیتا ہے کہ "خلیج فارس علاقائی مذاکرات فورم Regional Dialogue Forum in Persian Gulf" قائم کیا جائے۔ یہ دعوت جو ہم نے بہت پہلے دی ہے، بدستور قائم ہے۔ ہم اپنے پڑوسیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس دعوت کو قبول کریں اور اپنے یورپی اور مغربی متحدین سے بھی چاہتے ہیں کہ علاقے میں اپنے حلیفوں کو اس کام کی ترغیب دلائیں۔ 

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری