بینظیر بھٹو کے قاتل کی حوالگی کیلئے افغانستان سے رابطہ


بینظیر بھٹو کے قاتل کی حوالگی کیلئے افغانستان سے رابطہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیٹر رحمان ملک نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پارٹی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی حوالگی کے لیے افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطہ کرے اور تجویز دی کہ ملزما ن کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق تصنیف "انقلاب محسود ساوتھ وزیرستان: برطانوی راج سے امریکی سامراج تک" کے مصنف ابو منصور مفتی نور ولی نے انکشاف کیا ہے کہ بینظیر بھٹو پر خود کش حملے میں زندہ بچ کر نکلنے والا اکرام اللہ افغانستان کے صوبہ پکتیا میں روپوش ہے۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرپرسن نے رحمان ملک نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صدر اشرف غنی سے درخواست کرے کہ کتاب کے مصنف اور خود کش حملہ آوار اکرام اللہ کو پاکستان کے حوالے کرے۔

سینیٹررحمان ملک نے وزیرداخلہ احسن اقبال کو تحریری درخواست پیش کی کہ مصنف اور اکرام اللہ دونوں پاکستان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے کارندے اور افغانستان میں روپوش ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ٹی ٹی پی کے سینئر رہنما نے کتاب تحریر کی ہے اور پہلی بار طالبان قیادت نے محترمہ بینظیر بھٹو کی قتل کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول کی ہے اس لیے کتاب کے انکشافات کے تحت محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے۔

پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالنے والے رحمان ملک نے بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بھی انکشاف کیا تھا کہ ٹی ٹی پی چیف بیت اللہ محسود اور اس کے حواریوں نے بینظیر بھٹو پر حملے کی تیاری میران شاہ، شمالی وزیرستان ایجنسی میں کی وہ حملہ ٹی ٹی پی اور القاعدہ نے کروایا۔

رحمان ملک نے کہا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی ابتدائی تحقیقات میں بتایا تھا کہ بلال سعید اور اکرام اللہ کو بینظیر بھٹو کے قتل کے لیے بھیجا گیا اور بلال نے لیاقت باغ میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ اکرام اللہ جائے حادثہ سے فرار ہوگیا۔

سینیٹر رحمان ملک نے بتایا کہ اکرام اللہ افغانستان کے صوبہ پکتیا میں روپوش ہے جو افغانستان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔

کتاب کے مصنف ابو منصور مفتی نور ولی نے تحریر کیا کہ ‘بینظیر بھٹو امریکی ایجنڈا ساتھ لے کر آئیں تھیں جس کے تحت ‘مجاہدین’ کا قلع قمع کرنا تھا، بیت اللہ محسود نے دو حملہ آوار محسن محسود اور رحمت اللہ محسود تیار کیے اورا نہوں نے کراچی میں کارساز پر بینظیر بھٹو کے قافلے پر حملہ کیا جس میں بینظیر بھٹو بچ گئیں لیکن تقریباً 200 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

کتاب میں بتایا گیا کہ دونوں حملہ آوار مولوی عظمت اللہ کیمپ سے آئے تھے ۔

ابومنصور مفتی نور ولی نے دعویٰ کیا کہ ‘بلال نے پہلے پستول سے بینظیر بھٹو پر گولی چلائی جو ان کی گردن میں پیوست ہوئی اور ساتھ ہی خود کو بارود سے بھری جیکٹ سے اڑا دیا۔

سینیٹر رحمان ملک نے وزیرداخلہ احسان اقبال کو خط لکھا کہ ‘میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بینظیر بھٹو قتل کیس میں نئے انکشافات کے بعد اکرام اللہ اور مصنف کی حوالگی کے لیے افغانستان حکومت سے رابطہ کیا جائے اور سندھ وزیراعلیٰ کارساز حادثے کی دوبارہ تحقیقات کرائیں’۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری