ایران کا اسلامی انقلاب ۔۔۔ خود اعتمادی کا مضبوط قلعہ-1


ایران کا اسلامی انقلاب ۔۔۔ خود اعتمادی کا مضبوط قلعہ-1

جن صاحبان فکر و قلم نے ایران کے اسلامی انقلاب کی تشکیل اور کامیابی کی بنیادوں کو بیان کرنے کے لئے قلم اٹھایا ہے، انھوں نے ایران میں انقلاب آنے کا ایک عامل استبدادی حکمرانوں کے ذریعے اپنی تاریخی توہین و حقارت پر عوام کا ردعمل اور ان کے بیرونی حامیوں کو قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارہ تسنیم: جن صاحبان فکر و قلم نے ایران کے اسلامی انقلاب کی تشکیل اور کامیابی کی بنیادوں کو بیان کرنے کے لئے قلم اٹھایا ہے، انھوں نے ایران میں انقلاب آنے کا ایک عامل استبدادی حکمرانوں کے ذریعے اپنی تاریخی توہین و حقارت پر عوام کا ردعمل اور ان کے بیرونی حامیوں کو قرار دیا ہے۔

ان کا خیال ہے کہ پہلوی دور سلطنت میں ملت ایران کو بری طرح سے ذلیل کیا جاتا تھا اسی وجہ سے عوام نے امام خمینی رح کا کہ جنھوں نے خود مختاری و قومی بحالی اعتماد کی آواز بلند کی تھی ، مثبت جواب دیتے ہوئے انقلاب برپا کیا۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ انقلاب اسلامی قومی اعتماد کی بحالی پر ایمان اور یقین کا ثمرہ تھا- البتہ بعد کے برسوں میں انقلاب اسلامی نے اس اعتماد کو مضبوط بنانے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا- اگر بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے بیانات کی جانب رجوع کیا جائے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ آ پ بار بار اعتماد نفس کو مضبوط بنانے پر تاکید فرماتے تھے۔

مثال کے طور پر آپ نے شاہی پہلوی حکومت کی کارکردگی کے نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اہم بات یہ ہے کہ ایرانی سمجھ لیں کہ وہ خود کام کرسکتے ہیں۔ اس دور میں ہمیشہ یہ باور کرایا جاتا تھا کہ ایرانی کچھ نہیں کر سکتے اور انھیں ہرچیز باہر سے لانا ہے، یورپ سے لانا ہے ، امریکہ سے لانا ہے۔ یہ اس بات کا باعث بنا تھا کہ ایرانی فکر و دماغ استعمال نہ کریں اور استعمال کرنے بھی نہیں دیا۔ ایران کے لوگ  اورعوام دوسروں سے کم نہیں ہیں بلکہ بہتوں سے بالاتر ہیں – انھوں نے یہ صلاحیتیں اور توانائیاں استعمال نہیں ہونے دیا- توانائیوں کو استعمال میں لانا چاہئے اور حکومت اور قوم ان خلاقیت رکھنے والوں سے اس کی تاکید کریں تاکہ انشاء اللہ ایران خود ہی تمام چیزوں کو بنائے اور خودمختار ہوجائے۔

 آج اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا چالیس سال کا عرصہ گذرنے کے بعد ، قومی بحالی اعتماد اور اپنی جانب بازگشت کہ جو اسلامی انقلاب کے ابتدائی برسوں میں انقلابی رہنماؤں اور دانشوروں کی جانب سے پیش کی گئی تھی ایرانی عوام کی ایک ثقافتی خصوصیت اور اصول میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آج ایران کے عوام کی نظر میں خودمختاری صرف ایک ہدف اور آئیڈیل مقصد کہ جو ناقابل رسائی ہو، نہیں ہے بلکہ اس کی مٹھاس نے قوم کے کام و دہن کو بہرہ مند کیا اور ایران کے عوام کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کے نتائج مشاہدہ کئے گئے ہیں اس خودمختاری اور اعتماد کے نتائج کے سامنے آنے کا ایک اہم میدان علمی شعبے تھے۔

انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے ایک تاریخی مطالبے یعنی توسیع و ترقی کے خواب کی تعبیر دینے کی کوشش کی لیکن اس مہم کا سرہونا علم و دانش اور نوجوانوں اور دانشوروں کے اندر اعتماد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

امام خمینی رح نے بانی انقلاب اسلامی، انقلاب کے کلیدی ہدف کے عنوان سے ہمیشہ علم و دانش کے فروغ پر تاکید فرماتے تھے اور آپ کا خیال تھا کہ انقلاب کے تمام مقاصد خاص طور سے سیاسی ، اقتصادی اور فکری ونظریاتی ہدف کا عملی جامہ پہننا علم و دانش کے بغیر ممکن نہیں ہے- ایران میں علم و دانش کے فروغ کا ایک مرحلہ انقلاب کی کامیابی کے بعد ناخواندگی کو کم کرنا حتی اسے سماج سے پوری طرح ختم کرنا رہا ہے۔  اسی وجہ سے انقلاب اسلامی کی کامیابی کو ابھی ایک سال کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ امام خمینی (رح) نے اپنے ایک فرمان سے تعلیمی تحریک کا آغاز کیا اور ناخواندگی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے اس سلسلے میں ایک ادارے کی تشکیل کا حکم دیا۔

آپ نے اس پیغام میں فرمایا کہ نہایت شرمندگی کی بات ہے کہ ایک ایسا ملک کہ جو علم و ادب کا گہوارہ رہا ہو اور ایسے اسلام کے سایے میں زندگی بسر کررہا ہو کہ جس نے حصول علم کو واجب قرار دیا ہے وہاں کچھ لوگ پڑھنے لکھنے سے محروم ہوں ، ہمیں چاہئے کہ ایک طویل مدت پروگرام کے تحت اپنے ملک کی ثقافت کو خودمختار اور خودکفیل ثقافت میں تبدیل کریں۔ تمام ان پڑھ سیکھنے کےلئۓ اور تمام پڑھے لکھے بھائی بہن سکھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اس تعلیمی تحریک کے شروع ہونے کے بعد خواندگی کی تحریک حیرت انگیز طور پر نہایت تیزی سے پورے معاشرے میں پھیل گئی اور بہت سے لوگ پڑھنے لکھنے کی نعمت سے بہرہ مند ہوگئے۔

موجودہ اعداد وشمار کے مطابق ایسی حالت میں جب تیرہ سو ستاون ہجری مطابق انیس سو اناسی میں یعنی جس سال اسلامی انقلاب کامیاب ہوا ، چھے سال سے زیادہ عمر کی نصف سے زیادہ آبادی ان پڑھ تھی یعنی باون فیصد اور پڑھے لکھے افرا د کی شرح تقریبا اڑتالیس فیصد تھی جو کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کے برسوں میں  پچھتر فیصد تک پہنچ گئی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے صرف دوعشرے بعد یعنی انیس سو چھیانوے میں ایران کے اسی فیصد عوام پڑھنا لکھنا جان چکے تھے اور اس وقت  یہ شرح بڑھ کر تقریبا نوے فیصد ہوگئی۔

جاری ہے ۔۔۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری