روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے قانونی پہلووں کا جائزہ؛ چین اور بھارت کی بیلین ڈالرز کی سرمایہ کاری + تصاویر


روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے قانونی پہلووں کا جائزہ؛ چین اور بھارت کی بیلین ڈالرز کی سرمایہ کاری + تصاویر

خبررساں ادارے تسنیم کے مرکزی دفتر میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف پہلووں کا جائزہ انسانی حقوق کے فعال کارکنوں کی موجودگی میں لیا گیا۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے قانونی اور انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف پہلووں کا جائزہ لینے کیلئے تسنیم کے مرکزی دفتر میں ایک نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں بین الاقوامی سطح پر فعال انسانی حقوق کے کارکنوں نے موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔

اس نشست میں بین الاقوامی وکیل پروفیسر احسن خان اور بنگلادیش کے انسانی حقوق کے فعال کارکن امجد حسین نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے حوالے سے مختلف قانونی پہلووں کا جائزہ لیا۔

امجد حسین نے اس موقع پر روہنگیا مسلمانوں کی بدترین صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی داستاں 1960ء اور پاکستان کی آزادی سے قبل کی طرف جاتی ہے کہ جب انہیں بنگلادیش ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ 1978ء میں روہنگیا مسلمانوں کو ایک بار پھر ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 1991ء میں بھی سینکڑوں افراد کو سفر کرنے پر مجبور کیا گیا جبکہ حالیہ دور میں یہ مسئلہ زیادہ سنجیدہ ہوگیا اور آج یہ تعداد 12 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

انسانی حقوق کے فعال کارکن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ دنیا کا طویل ترین مہاجرین کیمپ 13 کلومیٹر کی مساحت کیساتھ بنگلادیش میں موجود ہے اور یہ دوسرا فلسطین بن چکا ہے۔

امجد حسین نے میانماری حکومت کے موقف کہ روہنگیا میانمار کے باشندے نہیں ہیں، کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میانمار اور بنگلادیش حکومتوں کا یہ مشترکہ موقف ہے لیکن روہنگیا مسلمانوں کا بنگلادیش سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کیونکہ ان کا میانمار کی پارلیمنٹ میں باقاعدہ نمائندہ موجود تھا۔

ان کا خلیج فارس ممالک کے کردار کے حوالے سے کہنا تھا کہ انہوں نے مساجد بنوائے اور خفیہ طور پر اپنی سلفی آئیڈیالوجی کو ترویج دینے میں مصروف ہیں۔ ترکی روہنگیا مسلمانوں کو امداد رسانی میں سب سے آگے ہے اور ایک چھوٹا سا شہر بھی بنایا ہے۔ ایران کی جانب سے امداد پہنچی ہے لیکن روہنگیا پناہ گزینوں کا مسلسل ایک سوال ہے کہ ایران کے اعلیٰ حکام دورہ کیوں نہیں کرتے؟

انسانی حقوق کے فعال کارکن کا اس بیان کیساتھ کہ چین اور بھارت کا روہنگیا مسلمانوں کے محل سکونت کے حوالے سے ایک خاص نقطہ نظر ہے، کہنا تھا کہ انہوں نے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ روہنگیا پناہ گزین واپس اپنے وطن لوٹ جائیں۔

اس موقع پر پروفیسر میمول احسن خان نے روہنگیا مسلمانوں کے موضوع کو بین الاقوامی سیاست اور انسانی حقوق کا اہم ترین موضوع قرار دیا اور کہا کہ روہنگیا ایک قدیم اور پرانا موضوع ہے جس کی کڑیاں ایک ہزار سال قبل کے دور سے جاملتی ہیں۔

انہوں نے خطے میں ہندووں اور بودائیوں کے درمیان اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان اختلافات کے حل کیلئے فریقین کی مرضی سے داخل ہوئے اور اس سرزمین کو "صلح و آشتی کی سرزمین" کا نام دیا گیا اور یوں یہ علاقہ ان لوگوں کیلئے بغیر کسی سرحد کے تجارت اور آمد و رفت کیلئے آزاد قرار پایا اور حتی یہ لوگ آپس میں رشتے بھی کرتے رہے، البتہ یہ پابندی لگائی گئی کہ آپس میں شادی کرنے کے بعد کوئی بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ اس علاقے کو نہیں چھوڑ سکتا۔

پروفیسر نے اس بیان کیساتھ کہ یہ امر اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی میں دوگنے اضافے کا سبب بنا، کہا کہ 19ویں صدی کے وسط میں استعمار کی جنگیں شروع ہوئی اور افغانستان سمیت اس علاقے میں بھی جنگیں چھڑ گئیں۔

احسن خان نے کہا کہ مسلمانوں نے انہی سالوں میں بھارت سے راکھین علاقے کی طرف ہجرت کی، راکھین 1947ء تک صلح و آشتی کی سرزمین تھی اور مسئلہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ برطانوی سامراج نے اس علاقے کے لوگوں کو دیگر اقوام کیساتھ لڑنے کی ترغیب دیتا رہا، اس علاقے کے لوگوں نے علنی طور ر اعلان کیا کہ انگریزوں کے آنے سے قبل ہم آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔

اس بین الاقوامی وکیل اور انسانی حقوق کے فعال کارکن کا خطے میں کشیدگیوں کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چین نے 1965ء میں اعلان کیا کہ یہ تمام علاقہ ہمارا ہے اور 1971ء میں بنگلادیش آزاد ہوا اور اسی سال سے راکھین چین کیلئے خصوصی توجہ اور اہمیت کا مرکز بنا رہا۔

پروفیسر نے اس بیان کیساتھ کہ اسی زمانے سے راکھین کے لوگوں کو غلام کی نظر سے دیکھا جانے لگا، ان کو پابند سلاسل کیا جانے لگا اور محدود کیا جانے لگا، مزید کہا کہ 1991ء میں 5 لاکھ افراد ایسی حالت میں راکھین واپس لوٹے کہ وہاں کے بودائی ان کیلئے کسی قسم کے حقوق دینے کے قائل نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان کے مشکلات حل کرنے کیلئے عالمی طاقتوں کو دعوت دی اور اسلامی ممالک سے ان کی امداد کا مطالبہ نہیں کیا اور یہ امر مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اس لئے ہوا کہ غیروں نے ہماری مشکلات کو حل کرنے کیلئے کبھی بھی قدم نہیں اٹھایا ہے۔      

امجد حسین نے روہنگیا بحران میں چین کے خفیہ کردار کو فاش کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چین اس بحران میں اقتصادی حوالے سے نہایت اہم کردار ادا کررہا ہے اور بھارت کے ہمراہ بیلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرچکا ہے تاکہ ایک خاص تجارتی زون قائم کرسکیں تاہم ایران نے تاحال اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی خاص شکایت نہیں کی ہے۔

احسن خان نے روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال اور سعودی عرب کے کردار کے حوالے سے بتایا کہ اس علاقے سے زیادہ تعداد میں مسلمان سعودی عرب چلے گئے ہیں اور سعودی آرمی میں بھرتی ہوئے ہیں جو یمنیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور یہ موضوع برادرکشی کی طرف لوٹتا ہے۔

اہم ترین ایران خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری