جنرل باجوہ: دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جہاد نہ کہا جائے/ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا وقت آگیا ہے


جنرل باجوہ: دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جہاد نہ کہا جائے/ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا وقت آگیا ہے

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کا موقف پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والی سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جہاد نہیں کہنا چاہیے، ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں، جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے، پاکستان میں تاحال 27 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اور وقت آ گیاہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے، افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں حملے ہورہے ہیں، پاکستان اور افغانستان کی سرزمین ایک دوسرےخلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی پر پاکستان کو تشویش ہے۔

میونخ میں ’خلافت کے بعد جہاد ازم ‘کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے آرمی چیف  جنر ل قمر جاوید باجوہ کا کہناتھا کہ خود پرقابورکھنا بہترین جہاد ہے، تمام مکاتب کے علماءنے مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کےخلاف فتویٰ دیا ہے،جہاد کا حکم دینے کا اختیار صرف ریاست کو حاصل ہے، انتہا پسندی کو جہاد نہیں کہنا چاہیے ،پاکستا ن نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

آرمی چیف کا کہناتھا کہ ہم نے 2017 میں آپریشن رد الفساد شروع کیا  اورالقاعدہ ،جماعت لااحرار اور طالبان کو شکست دی ،پوری قوم کی مشترکہ کوششوں سے دہشتگردی کا خاتمہ کیاہے ،ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ،دہشتگردی کے خلاف جنگ میں صرف ملٹری آپریشن نہیں کر رہے بلکہ دہشتگردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے ، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کردار بے مثال ہے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان سیاحوں کی پسندیدہ جگہ تھی لیکن اب پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، خفیہ ایجنسیاں بھی داعش کے افغانستان میں پنجے گاڑنے کی تصدیق کر رہی ہیں، پاکستان میں گزشتہ برسوں میں 130 حملوں میں سے 123 افغانستان سے کیے گئے، ہم داعش کو پاکستان میں داخلے سے روکنے میں کامیاب ہوئے، ہم نے افغان بارڈر کے ساتھ بائیو میٹرک سسٹم نصب کیا،پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے۔

آرمی چیف کا کہناتھا کہ ہم نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا، پاکستان میں نفرت انگیز تقاریر اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف اصلاحات کی گئیں،دہشتگردی کے خاتمے کیلئے عالمی تعاون ضروری ہے ،افغانستان میں امن و استحکام کیلئے تعاون کیلئے تیار ہیں،افغانستان میں دہشتگردوں کی موجودگی پر تشویش ہے۔

ڈیلی پاکستان کے مطابق انہوں نے واضح اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اب بھی 27 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اور اب وقت آ گیاہے کہ انہیں واپس بھیجا جائے ، افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں حملے ہورہے ہیں، پاکستان اور افغانستان کی سرزمین ایک دوسرے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی پر پاکستان کو تشویش ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان خودمختار ملک ہیں ،پاکستان ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وہ کاٹ رہے ہیں جو 40 سال پہلے بویا گیا۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری