حکومت کے بیانات فوج کو مداخلت کی برملا دعوت دے رہے ہیں, اعتزاز احسن


حکومت کے بیانات فوج کو مداخلت کی برملا دعوت دے رہے ہیں, اعتزاز احسن

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے حکومتی اراکین کے اداروں کے خلاف بیانات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے بیانات فوج کو مداخلت کی برملا دعوت دے رہے ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق سینیٹ میں الوداعی تقریر کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے فرحت اللہ بابر کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’فرحت اللہ بابر کی تقریر سے متفق ہوں کہ عدلیہ کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے، فوج کو طالع آزمائی نہیں کرنی چاہیے اور فرحت اللہ بابر نے یہ بھی درست فرمایا کہ جب ججز اپنے فیصلے میں شاعری لکھتے ہیں تو خوف آتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جج جب زیادہ بولتے ہیں تو تجاوز کرتے ہیں، جب فوجی ہزار روپیہ فیض آباد دھرنے میں بانٹتے ہیں تو وہ آئین میں کردار سے تجاوز کرتے ہیں۔‘

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’اقامہ، پاناما کا فیصلہ منظور نہیں لیکن جب عدلیہ حدیبیہ کا فیصلہ دیتی ہے تو ہمارے لیے وہ منظور ہے، پھر اسے بھی مسترد کرو، یوسف رضا گیلانی سے تو کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانو اور سیٹ سے اترو لیکن جب اپنے لیے یہی فیصلہ آئے تو ’فیصلہ نامنظور‘ کے نعرے لگوائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی بینچ نے اورنج ٹرین کا اتنا بڑا تحفہ دے دیا لیکن شالیمار گارڈن بھاڑ میں جائے، لیکن جب احد چیمہ پکڑا جائے تو اسی عدلیہ اور پراسیکیوٹر کو غلط کہتے ہو، سندھ میں سرکاری افسران گرفتار ہوئے تو کوئی قلم چھوڑ ہڑتال نہیں ہوئی تو کیا پنجاب انوکھا ہے، چیف سیکریٹری کے کمرے میں فیصلہ ہوا کہ ہڑتال ہوگی جو بغاوت ہے، پنجاب بغاوت کرے تو ٹھیک لیکن بلوچستان میں پتہ ہلے تو بندہ اٹھا لو۔‘

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’آپ کے جلسوں میں یہ حرکات ایک آئینی ادارے کے خلاف دھمال ڈھلوانے کے مترادف ہے، جس طرح کی حکومتی اراکین بات کر رہے ہیں اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ نے ان پر بڑا نرم ہاتھ رکھا ہے، جو یہ کر رہے ہیں یہ برملا فوج کو مداخلت کے دعوت دے رہے ہیں اور ’میرے عزیز ہم وطنوں‘ کی تقریر کا جواز پیدا کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں فوج اس وقت بڑی جنگ لڑ رہی ہے اور یہ فوج ہماری فوج ہے، کہا جاتا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کہیں اور سے لکھوائے جاتے ہیں، کہاں سے لکھوائے جاتے ہیں حکومت تو آپ کی ہے؟‘

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم کہتے ہیں کہ جس دن آپ کہیں گے تو اسمبلی ختم کردوں گا، کوئی وزیر اعظم یہ نہیں کہہ سکتا یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس بات سے بلکل انکار نہیں کہ اداروں کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے لیکن ہمیں بھی اپنے دائرہ میں رہنا چاہیے، ہیں خود احتسابی کرنی چاہیے، ہمیں کس نے اجازت دی کہ جلسوں میں کہیں کہ پانچ ججوں نے فیصلہ دے کر نکالا، جب چیف جسٹس پر اتنا دباؤ پڑتا ہے تو احتساب عدالت کے جسٹس بشیر پر کتنا دباؤ پڑتا ہوگا اور عدالت پر کتنا دباؤ پڑتا ہوگا۔‘

واضح رہے کہ دو روز قبل سینیٹ میں اپنی الوداعی تقریر میں فرحت اللہ بابر نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں اور بیانات سمیت موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’چیف جسٹس آف پاکستان قسم کھا کر کہتے ہیں کہ میرا سیاسی ایجنڈا نہیں، مجھے ان کے قسم کھانے پر تشویش ہو رہی ہے‘۔

فرحت اللہ بابر نے عدالتی فیصلوں میں آئین اور قانون کا حوالہ دینے کی بجائے شعر لکھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات کا سال 2018 کہیں عدالت کے خلاف ریفرنڈم کا سال ثابت نہ ہو۔‘

انہوں نے تقریر میں اپنی جماعت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کی بالادستی سے ہٹ گئی ہے۔

بعد ازاں انہیں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق فرحت اللہ بابر کی جانب سے سینیٹ میں کی جانے والی تقریر پر آصف زرداری سخت ناراض تھے۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری