پاکستان کا نئی دہلی سے اپنا سفارتکار واپس بلانے پر غور


پاکستان کا نئی دہلی سے اپنا سفارتکار واپس بلانے پر غور

اسلام آباد نے نئی دہلی کی جانب سے پاکستانی سفارتکار اور ان کے اہلخانہ کو دھمکی اور ہراساں کیے جانے پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ نہیں رکا تو سفارتکار کو اہلیہ کے ہمراہ واپس بلالیا جائے گا۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن اور دہلی میں وزارت خارجہ امور کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ذرائع نے تفصیل سے بتایا کہ ’پاکستانی سفارتکار اور ان کے اہلخانہ کو ہراساں کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں بھارت میں تعینات کرنا مشکل ہو چکا ہے‘۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے والے اہلخانہ مزید برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس ضمن میں انہوں نے بتایا کہ تین روز قبل پاکستانی ڈپٹی ہائی کمشنر کے بچوں کو اسکول جاتے وقت راستے میں روکا اور انہیں ہراساں کیا گیا جبکہ اس سے قبل ایک اور واقعے میں سینئر سفارتکار کو دہلی جاتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سفارتکاروں کی گاڑیوں کو مختلف حیلے بہانوں سے روک کر تلاشی لی جاتی ہے دوسری جانب سفارتکار کے عملے کو عوامی مقامات پر بدتہذہبی کا سامنا ہے۔

مذکورہ واقعات کے بعد سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پاکستانی سفارتکار کو ہراساں کرنے کے واقعے کی مذمت کی اور بھارت کی جانب سے ایسے سفارتی آداب کے خلاف سنگین ورزی قرار دیا۔

نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں بھارتی عملے کو بھی انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے آنے سے روک دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارتی جنتا پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی دونوں ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں کشدیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے 2003 میں جنگی بندی کے معاہدے کے باوجود بھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے 87 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

اس ضمن میں اکتوبر 2016 میں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے پیش گوئی کی تھی کہ جب تک ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اقتدار میں ہیں، پاک-ہندوستان تعلقات میں بہتری کی امید بہت کم ہے تاہم 'پاکستان خطے کے بہترین مفاد میں ہندوستان سے کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے۔'

پاک-ہندوستان کشیدگی—کب کیا ہوا

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات اُس وقت کشیدہ ہوئے جب 18 ستمبر کو کشمیر کے اوڑی فوجی کیمپ میں ہونے والے حملے کے بعد، جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، ہندوستان نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا تھا تاہم اسلام آباد نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

بعدازاں 29 ستمبر کو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے اطراف پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔

پاکستان نے ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں اس کے دو فوجی جاں بحق ہوئے۔

بعد ازاں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے ایک ہندوستانی فوجی کو پکڑا بھی گیا ہے جبکہ بھرپور جوابی کارروائی میں کئی انڈین فوجی ہلاک بھی ہوئے۔

ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کشمیر کی موجودہ صورتحال پر دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے اور اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

یاد ریے کہ رواں برس 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں صورتحال کشیدہ ہے اور پولیس سے جھڑپوں اور مظاہروں میں اب تک 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ چھرے لگنے سے 150 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری