ایران اور پاکستان کو خطے میں امن کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، افغانستان میں طالبان کی حکومت میں شمولیت ناگزیر ہے: کمال خرازی + تصاویر


ایران کی کونسل برائے امور خارجہ کے سربراہ اور سابق وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال خرازی کا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان کو خطے میں امن کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق وزیرخارجہ اور کونسل برائے امور خارجہ کے سربراہ کمال خرازی کا کہنا ہے کہ ایران اور پاکستان کو خطے میں امن کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ چاہ بہار اور سی پیک کے آپس میں ملنے سے خطے میں بہت بڑی معاشی تبدیلی آئے گی،پاکستان کایمن تنازعے میں فریق نہ بننا قابل تحسین ہے۔

انہوں نے افغانستان میں جاری خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت میں شمولیت ناگزیر ہے ،افغانستان کے بارے میں ہماری مفاہمت یہ ہے کہ اگلی حکومت میں اگر طالبان شامل ہوگئے تو امریکہ کے افغانستان میں قیام کا جواز ختم ہوجائے گا۔

واضح رہے کہ کمال خرازی گزشتہ روز انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں "عالمی اور خطے کے ابھرتے منظرنامے کے بارے میں ایرانی نقطہ نظر" کے موضوع پرمنعقدہ سیمینارسے خطاب کررہے تھے۔

ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ بھارت اور ایران کا باہمی تعاون کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہوسکتا جس طرح پاکستان سعودی اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران ثقافتی، مذہبی ، جغرافیائی اور تاریخی طور پر صدیوں سے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں ان کے مفادات اور روایات مشترک ہیں لہٰذا دونوں ممالک کی پالیسی میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اہمیت نہیں ہے۔

 امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے اختلافات کو دور کرکے مشترکہ مفادا ت کیلئے تعاون کرنا چاہیے۔

 ایران اور امریکہ کی نیوکلیر ڈیل کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اس سے بھاگنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس معاہدے پر قائم ہے اور اس کے باوجود ہم دوسری صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

 ڈاکٹر کمال خرازی نے کہا کہ داعش کو ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے بنایا گیا تھا مگر وہ اس مقصد میں ناکام رہی۔ داعش نے 80ہزار فوج بھرتی کی ہے جس میں 50ہزار مختلف ممالک سے جنگجو لائے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر عراق اور شام میں داعش کامیاب ہو جاتی تو دونوں ممالک کے حصے بخرے ہوجاتے اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوتا۔

 شام کی موجودہ صورتحال اور بشارالاسد کی حکومت کی ایران کی جانب سے حمایت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ کے مطابق داعش کے ذریعے اسرائیل شام کو توڑ کر دو ملک بنانا چاہتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ امت مسلمہ کے خلاف ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر طاقتیں اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ کیوں ہیں؟ اگر ایسا ہو جائے گا تو اس کا براہ راست اثر ایران پر ہوگا، اس لیے ہم نے شام کی یکجہتی کے لیے بشارالاسد حکومت کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام میں شیعہ اور سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ پاکستان، ترکی ایران اور سعودی عرب مل کر مسلم امہ کو قیادت فراہم کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کا حقیقی مقام دلاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت میں ملٹری الائنس میں پاکستان کی شمولیت ایران کے خلاف نہیں ہے اور پاکستان کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ43ملکی اتحاد کے ذریعے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاک ایران تعلقات اور ڈاکٹر کمال خرازی سے دیرینہ تعلقات پر روشنی ڈالی۔

تقریب میں سابق سفراء، یونیورسٹی اساتذہ ،پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنردوست سمیت ایرانی سفارتی اہل کاروں، میڈیا کے نمائندوں ، دانش وروں اور محققین اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔