اگراسٹیبلیشمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے۔۔۔!


اگراسٹیبلیشمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے۔۔۔!

مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں جنہیں ہمارے حکمران اسٹیبلشمنٹ پکارتے ہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے جتنا بیان کیا جاتا ہے اور جسکی مرضی کے بغیر اس مملکت خداداد پاکستان میں پتہ بھی نہیں ہلتا تو عام آدمی سے جڑے تمام مسائلحل کیوں نہیں ہو جاتے؟ 

خبر رساں ادارہ تسنیم: مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ہیں جنہیں ہمارے ارباب اختیارتمام اختیارات کا اصل وارث جانتے اور مانتے ہیں ۔ میں کبھی بھی حیرت کدے سے باہر نہیں آسکا کیونکہ وہ ارباب اختیار جنہیں ہم سب عام پاکستانی اس مملکت خداداد پاکستان کی طاقتورترین شخصیات میں گردانتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف صاحب اقتدار کے پاس ہی ہے نوحہ کناں ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ انکی طاقت دراصل انکی نہیں بلکہ کسی طاقتورترین قوت کی ہے جسے وہ اسٹیبلشمنٹ پکارتے ہیں اورعام پاکستانیوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ انکا نام تک نہیں لیا جا سکتا وہ اتنے طاقتور ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ایک ایسے آہنی ہاتھ کے طور پر پکارتے اور ظاہر کرتے ہیں کہ اس ملک میں ہرحکمران انہی کے اشاروں پر ناچتا کٹھ پتلی ہے اور اہم ترین سیاسی و حکومتی مناصب سے لیکرادنی ترین انتظامی معاملات تک انکی ہی منشاء کام کررہی ہے۔ مختصرترین الفاظ میں ارباب اختیار کے الفاظ کی تلخیص بیان کروں تو گویا کہ اسٹیبلشمنٹ میرے پیارے پاکستان کے جسد میں روح کا درجہ رکھتی ہے۔

اگراسٹیبلشمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے جتنا کہ ہمارے قلوب واذہان کوباورکرایاگیاہے تو میں ایک عام بے وقعت و بے اختیارپاکستانی کی حیثیت سے چند ایک التجائیں اسی نادیدہ قوت سے کرنا چاہوں گا۔

اگر مجھے آپ کا پتہ معلوم ہوتا یا آپ کے طاقتور ترین گروہ کا کوئی نمائندہ میرا تعلق دار ہوتا تو جناب خادم اسطرح کی عوامی ہرزہ سرائی کبھی بھی نہ کرتا لیکن جناب بہترین عوامی مفاد میں "منہ آئی بات نہ رہتی ہے"۔

اگر آپ اتنے ہی طاقتور ہیں جتنا کہ ہر پاکستانی کا خیال ہے تو جناب پاکستان کے ہسپتالوں کے اندر مریضوں کی حالت زار کا عام آدمی کی نظر سے کبھی جائزہ لے کردیکھیں۔ہماری قوم کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں جس کرب اوردکھ میں اپنے مریضوں کا علاج کروانے کے لیے موجود ہوتی ہیں شایدآپ کواسکا اندازہ ہی نہیں ہے۔  یہ درست ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے  04 جنوری 2018 کولاہور کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا ازخود نوٹس لیااورسرکاری ہسپتالوں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ صاحبان کو تفصیلی رپورٹ کے ساتھ 6 جنوری کو پہلی مرتبہ طلب کرلیاجبکہ 13 جنوری کو کراچی کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر ازخود نوٹس پرسماعت کی جسکا تاحال کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ جناب چیف جسٹس کی کاوش اپنی جگہ لیکن پاکستان کے دو بڑے شہروں میں قائم سرکاری ہسپتالوں میں  وینٹیلیٹرز، آکسیجن، انکیوبیٹرز، انجیوگرافی مشینز، سی ٹی اسکین،جان بچانے والی ادویات کی فراہمی، ایم آر آئی مشینز ، مفت ادویات اور ایمبولینسز کے مسائل ہی نہیں حل ہو پائے تو معاشرتی فلاح اور پرسکون علاج کا خواب ہم کب شرمندہ تعبیر کر پاءیں گے؟ یہ تو ابھی شہروں کی حالت ہے چھوٹے شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں کا تو گمان بھی رات کی نیندیں اڑادیتا ہے۔ صرف تصور کریں کہ آپ کی بیگم صاحبہ آپ کے وارث کو دنیامیں لانے جا رہی ہوں اور آپ کو چنگچی رکشہ کی پچھلی سیٹ پر ٹوٹی سڑک پر دس میل کی مسافت طے کر کے ایک ایسی ڈسپنسری پہنچنا ہو جہاں ایک میٹرک فیل کمپوڈرنما ڈاکٹرغیرمعیاری آلات کی مدد سے زچگی کے تمام مراحل خود ہی طے کرنے پر فائز ہو؟ جسکا تصور آپ کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے وہ میرے وطن کے بے بس و بے حس عوام کا روز مرہ کا معمول ہے جناب! یہ افسوس تو ایک طرف ہے کہ وہ عوام اپنے لیے اور اپنے ساتھ کتنی مخلص ہے لیکن ریاست تو ماں ہے نا جناب! ریاست کو تو اپنا فرض اداکرنا ہے نا؟ یہ صرف ایک جانب کی روداد ہے!

دکھ اور بھی ہیں شاید یہ تحریر پڑھنا آپ کے لیے بھی اتنا ہی تکلیف دہ ہو جتنا میرے لیے لکھنا ہے لیکن جناب انکا کیا جو ان تکالیف سے روزانہ گزرتے ہیں ؟ تعلیم ۔۔۔ آہ ۔۔۔ کس سے منصفی چاہیں ؟ کس سے مداوا چاہیں ؟ ایک چھوٹی سی مثال دے کر آگے بڑھتا ہوں کہ تین سال سے بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے تین ہزارطلباء کو ڈگریاں نہیں ملیں اور کیس لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن جناب والا جج صاحب سردارطارق مسعود خان صاحب کی بیٹی آمنہ طارق خان کوڈگری جاری ہو چکی ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب یہ تین ہزار پڑھے لکھے نوجوان ہتھیاراٹھا لیں گے تاکہ اپنا حق حاصل کر سکیں ۔ مجھے تو ڈر اس وقت سے بھی لگتا ہے کہ جب تاریخ کی سب سے بڑی پڑھی لکھی نوجوان نسل بے روزگاری کی وجہ سے دہشت گردوں سے صرف اس لیے جا ملے کہ وہ پرکشش تنخواہ کی نوید سنا رہے ہوں۔

مجھے تو وزیرخزانہ کی ترقی کی منطق سمجھ نہیں آتی کہ جب سروے رپورٹ کہتی ہے کہ ہرا

یک سومیں سے صرف ایک انجینیر کو ملازمت ملتی ہے جبکہ ہر دس میں سے صرف چار ایسے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو کہ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہر چھ تعلیم یافتہ بےروزگار ہیں۔ گردشی قرضہ ایک کھرب ڈالرسے تجاوز کر گیا ہے جبکہ تیل ، ڈالر، اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جبکہ چالیس فیصد متوسط طبقہ کی ماہانہ آمدنی بیس سے تیس ہزار کے درمیان ہے۔ جناب اس بیس سے تیس ہزار ماہانہ میں ایک چار افراد کے کنبہ کا بجٹ بنا دیں کہ کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے شب و روز کس عذاب میں گزرتے ہیں یہ ریشم و کمخواب کے بسترپر شب و روز گزارنے والے کیا جانیں۔ جن دودھ کی نہروں کی نوید مجھے سنائی جاتی ہے وہ عام آدمی کی دسترس سے کوسوں دور ہیں۔

 اگر آپ اتنے ہی طاقتور ہیں جتنا خیال کیا جاتاہے تو جناب میرا خواب ہے کہ کچھ ایسا کر دیں کہ حقوق برابری کی بنیاد پر ملناشروع ہو جائیں۔ گو کہ فلاحی معاشرہ میں مواقع برابری کی بنیاد پر ملا کرتے ہیں اور وہ ہی معاشرہ کی ترقی کی کنجی ہیں لیکن جناب جہاں شب و روز تکلیف میں ہوں وہاں کم ترین سہولت بھی جنت کا پھل ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس کام کو کرنے کے لیے کوئی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ بس مصمم ارادہ کی ضرورت ہے۔

کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کو محفوظ رکھا ہوا ہے ۔ جناب پھرتوآپ واقعی بہت طاقتور ہیں۔ دنیا کی چھ اعلی ترین اقوام کے برابر کے طاقتور! اگر ان اثاثوں کے حصول، تکمیل، حفاظت، و ترقی کا مشن آپ کے مصمم وغیرمتزلزل عزم نے پایہ تکمیل کو پہنچایا تواثاثہ عشق و جنوں مملکت خداداد پاکستان کے اندر بدانتظامی اور نظام استحصال آپکے لیے سوائے ایک سراب کے کچھ بھی نہیں۔ ان شاخوں کو کاٹ دیجیے جو اس شجرسایہ دارپربدنماداغ بنے ہوئے ہیں۔ فیصلہ کیجیے! جو کام کرے گا طاقت کا مزہ لے گا۔ جو کام نہیں کرے گا قفس کا ذائقہ چکھے گا! رشوت خورسربازارسزادیاجائے گا! ہرپھل داردرخت کی پنیری کو برابری کی بنیاد پر پانی دیا جائے گااورخراب پھل کے حامل درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا! اگرآپ طاقتور ہیں تو فیصلے وہ کریں جن سے آنے والی نسلیں امن و سکون سے رہ سکیں نہ کہ ایسے فیصلے کہ ایک نسل کا بویا دوسری نسل کاٹے اور دوسری کا بویا تیسری نسل کاٹتی پھرے اور ہر نسل اسی لاحاصل سعی میں اپنی تمام تر محنت و وسائل صرف کر بیٹھے۔ بڑوں کے فیصلے چھوٹوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ اگر آپ طاقتور ہیں اور پاکستان کے سیاہ سفید کے مالک تو وہ فیصلے کریں جن کے طفیل آپکومستقبل قریب و بعید میں چھوٹوں کے آگے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔   

اگراسٹیبلشمنٹ اتنی ہی طاقتور ہے تو آج یہ سب ہو چکا ہوتا لیکن شاید اتنی طاقتور نہیں جتنااپنی نالائقی چھپانے کے لیے بیچارے عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ شاید کوئی ایسی نادیدہ قوت ہو ہی نہ اور ہم عام لوگ ہی وہ طاقت ہوں جن سے محل سرائوں کے باسی خوف کھاتے ہیں۔ بہرحال راقم تو ایک بہترین فلاحی ریاست کے خواب کے سواکچھ بھی نہیں چاہتااور اسی کی جستجو میں جو کچھ ہو سکا اپنا حصہ ڈالتا جائے گا۔ آپکی کبھی کسی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ سے ملاقات ہوئی ہے تو راقم کو ضرور مطلع فرمائیے تاکہ اپنے نظریات کی اصلاح کر سکوں۔

تحریروتحقیق: مسعود چوہدری   

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری