ایک شخص مورخ کی نظر میں ۔۔۔


ایک شخص مورخ کی نظر میں ۔۔۔

زرداری صاحب اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب یہ اقتدار میں ہوتا ہے تو گلا پکڑتا ہے اور جب مشکل میں ہوتا ہے تو پیر۔

خبررساں ادارہ تسنیم: وہ جمیعت علماء پاکستان کے پاس ٹکٹ کے لئے گیا ۔علامہ شاہ احمد نورانی صاحب نے جماعت میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر غلام مصطفٰی کھر صاحب کے آگے پیچھے پھرا کہ پیپلز پارٹی میں جگہ بن جائے لیکن دال تھی کہ گل ہی نہیں رہی تھی۔ تحریک استقلال ایک نئ پارٹی بنانے کا مشورہ آیا اور ساتھ ہی آج خلائی مخلوق کہ کر پکارے جانے والوں نے وسیع تر قومی مفاد میں بھرپور مدد کی۔ یہ صاحب خود اس پارٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے پہلی مرتبہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  لیکن کنگز پارٹی جونیجو کی تھی لہذا جونیجو صاحب کے ساتھ خود کو نتھی کر لیا۔  یوں مسلم لیگ میں شمولیت ممکن ہوئی اور ساتھ ہی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی مالیات کی وزارت بھی میسر آئ۔ مسلم لیگ میں شامل ہوتے ہی اسوقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور پنجاب کی وزارت اعلٰی کا قلمدان سمبھال لیا۔ جنرل صاحب کے طیارہ کو حادثہ پیش آگیا اور یوں پاکستان میں پاپولراپرائیزنگ کا گلہ دبانے کے لیئے آئی جے آئی بنائی۔ آئی جے آئی کاسکہ نہ چل سکا اور یوں پاکستان مسلم لیگ (ن) وجود میں آئی ۔۔۔ اس کے بعد کی کہانی سے سب واقف ہیں۔

افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب ان کے کارکن دوسروں کو لوٹا کہتے ہیں اور سیاسی کارکنوں کو انکےلیڈر کی پارسائی پر درس دیتے پائے جاتے ہیں۔  اس حمام میں سب ننگے ہیں۔  سب نے ہی ماضی میں بہت کچھ ایسا کیا ہے جو کہ ناقابل بیان ہے۔  کیا عارفہ صدیقی اور کیا ریما، ریشم،  طاقت اور اقتدار کے حصول کے لیئے کس کس کو کس کس طریقہ سے استعمال نہیں کیا گیا۔  ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے گئے کہ انسانیت آج بھی شرمندہ ہے۔  آج وہ شخص حساب دے رہا ہے۔ عنقریب مکافات عمل بھی بھگتے گا۔  لیکن اس حساب کتاب کا الزام انہی پر لگا رہا ہے جنہوں نے اسے تراشا ہے۔  زرداری صاحب اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب یہ اقتدار میں ہوتا ہے تو گلا پکڑتا ہے اور جب مشکل میں ہوتا ہے تو پیر۔  میری کوئی ذاتی مخالفت نہیں۔  ہاں دو ایک ملاقاتیں ضرور ہیں لیکن یہ قابل فخر امر نہیں۔  قابل فخر بات یہ ہے کہ جس نظام پر ہم یقین رکھتے ہیں اور جس نظام کو بطور پاکستانی میں پھلتا پھولتا اور ہر ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بنتا دیکھنا چاہتا ہوں وہ اپنی جڑیں مظبوط کر رہا ہے۔  خدا کرے کہ یہ تسلسل قائم رہے۔  اور ہاں اگر اس شخص نے جس کے بارے میں تذکرہ کیا اس نے کچھ نہیں کیا اور بقول اس کے اس سے انتقام لیا جا رہا ہے تو جناب آپ نے بھی تو ای عرصہ تک اس نظام کو مفلوج کیئے رکھا۔ آپ نے اس ملک و قوم کے ساتھ اور ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا کہ اس کا اندازہ آپکو خود بھی نہیں۔ میں نے دو سال پہلے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ہم اپنے ساتھ کیئے جانے والے ظلم کا بدلہ تاریخ میں لیں گے کیونکہ ہم کمزور اور آپ طاقتور ہیں۔  اگر آپ بے قصور ہیں تو انصاف سے گھبراتے کیوں ہیں۔  لیکن اگر آپ مجرم ٹھرے جو کہ آپ ہیں تو اگر آپ غیرتمند ہوتے تو ایک غیرتمند کی طرح منہ چھپا لیتے لیکن جناب آپ تو آج بھی برطانیہ کی ڈاوننگ اسٹریٹ پر اقتدار کی بھیک مانگتے پائے جارہے ہیں۔  یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی کہ کیا ہوتا ہے لیکن راقم نے تاریخ سے یہ سبق ضرور سیکھا ہے کہ جو لوگ اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں اور اصول کی بجائے مفادیت کو فوقیت دیتے ہیں ان کو ہمیشہ نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری